انیس الرحمن
محفلین
جرمن کہانی
غریب ہی اچھا
مسعود احمد برکاتی
ایک آدمی دولت کمانے کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہالینڈ گیا۔ وہ ہالینڈ کے دارلحکومت ایمسٹریڈم پہنچا۔ اس شہر میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے اس نے ایک بہت عالیشان عمارت دیکھی۔ بہت دیر تک عمارت کو دیکھتا اور سوچتا رہا کہ یہ کس شخص کا مکان ہے؟ کون خوش قسمت شخص اس میں رہتا ہوگا؟ وہ کتنا مال دار ہوگا؟ ایک آدمی قریب سے گزر رہا تھا۔ مسافر نےاس شخص سے پوچھا کہ یہ کس کا مکان ہے تو اس آدمی نے کہا، "کے نی ٹو ورس ٹن۔"
ہالینڈ کی زبان میں اس کامطلب ہے، "میں آپ کی بات نہیں سمجھا۔" لیکن مسافر یہ زبان نہیں جانتا تھا، اس لیے اس نے سمجھا کہ یہ آدمی مکان مالک کا نام "کے نی ٹو ورس ٹن" بتارہا ہے۔
اس آدمی کی یہ خواہش اب اور بھی بڑھ گئی کہ وہ چھوٹی موٹی نوکری یا محنت مزدوری کرنے کے بجائے کوئی بڑا کام کرے، خوب کمائے اور بہت ساری دولت اکھٹی کرے۔ اس فکر میں اس نے اور زیادہ کوشش شروع کر دی۔ ایک دن وہ سمندر کے کنارے پہنچا۔ اس نے دیکھا ایک بہت بڑا جہاز گودی پر لگا ہوا ہے اور ہزاروں مزدور سامان اتار رہے ہیں۔ مسافرنےایک آدمی سے پوچھا، "یہ جہاز کس کا ہے؟"
جواب ملا، "کے نی ٹو ورس ٹن۔"
مسافر پھر یہی سمجھا کہ یہ جہاز کے مالک کا نام ہے۔ وہ دل میں سوچنے لگا کہ "کے نی ٹو ورس ٹن" کتنا رئیس ہے جو چیز دیکھو اس کی ہے۔
کچھ دن بعد مسافر نے دیکھا کہ ایک جنازہ جا رہا ہے۔ ہزاروں آدمی اس جنازے کے جلوس میں شریک ہیں۔ مسافر سمجھ گیا کہ کوئی بڑا آدمی مرا ہے۔ اس نے سوچا اس آدمی کا نام معلوم کرنا چاہیے۔ جب اس نے کسی سے پوچھا تو وہی جواب ملا، "کے نی ٹو ورس ٹن۔"
مسافر کو بڑا رنج ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ دیکھو کوئی آدمی کتنا ہی بڑا ہو، کتنی ہی دولت اور جائداد کا مالک ہو موت سے نہیں بچ سکتا۔ تو پھر مال و دولت اکھٹی کرنے کا کیا حاصل؟ اب اس آدمی کو دیکھو، سارا مال و متاع دوسروں کے لیے چھوڑ کر رخصت ہوگیا۔ میں خوامخواہ دولت کمانے کی فکر میں ملکوں ملکوں گھوم رہا ہوں۔ مال دار بننے کی خواہش نے مجھے پریشان کر رکھا ہے۔ نہیں، اب میں لالچ نہیں کروں گا اور جو بھی کام کروں گا محنت سے کروں گا اور بس اتنا کماؤں گا کہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکوں اور عزت سے رہ سکوں۔ محنت اور ایمان داری سے کما کر کھانے میں ہی زندگی مزے سے گزرتی ہے۔
(نونہال، جنوری 1989 سے لیا گیا)