الف نظامی
لائبریرین
غزلِ خطاطی۔۔صابر ظفر کی تخلیقات کا جہانِ نَو
(ابن کلیم احسن نظامی)
(ابن کلیم احسن نظامی)
اس جہانِ رنگ و بو میں حسنِ فطرت جا بجا بکھرا ہوا ہے۔ اس کو جانچنے اور بھانپنے کیلئے اور اس سے حظ اُٹھانے کیلئے جمالیاتی نظر شرط ہے۔ وہ جو کسی شاعر نے کہا ہے:
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
تخلیق کاروں کے نزدیک غزل کہنے کیلئے کسی محبوب کا ہونا لازمی ہے۔ چاہے وہ خیالی ہی کیوں نہ ہو حالانکہ جس طرح فطرت کے حسین نظارے موضوعِ سخن بن جایا کرتے ہیں اسی طرح فنونِ بصری میں فنِ خطاطی بھی بڑا وسیع کینوس کا حامل ہے جنابِ صابر ظفر نے اپنے باکمال جذبۂ تخلیق کے اظہار کیلئے خطاطی کو محبوب کا درجہ دے کر اس پر طبع آزمائی کی اور اپنے مجموعۂ کلام ’’غزلِ خطاطی‘‘ میں 70 غزلیں رقم کر دیں۔ یہ انہیں کا ہی کمال ہو سکتا ہے۔ انہوں نے تخلیق کاروں کو ایک نیا کینوس دے دیا ہے، اب ان کی تقلید میں کئی شعراءِ کرام خطاطی کی جانب متوجہ ہوں گے اورطبع آزمائی کی جائے گی۔
قلم کی طاقت مسلّم ہے اور حق سچ رقم کرنے والا قلم کار اس کی عظمت کو سلامِ عقیدت پیش کرتا ہے اور جھوٹ کا سہارا لے کر لکھنے والا خائن ہے۔ ایسے خائن کے خبث باطن کو کیسے ابلاغ کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
زندگی جس نے گذاری ہو سدا جھوٹ کے ساتھ
حرفِ حق لکھا جو دیکھے تو برا لگتا ہے
حرفِ حق لکھا جو دیکھے تو برا لگتا ہے
کم و بیش چودہ سو برس سے ہمارے ارتقائی روایتی فن خطاطی کو جو کہ بلا مبالغہ ہماری ثقافتی میراث ہے اس کو موضوع بنا کر آج تک اکثر شعراءِ کرام نے زیادہ سے زیادہ ایک نظم بمشکل لکھی، مگر ہماری حیرت کی انتہا ہو گئی جب جناب صابر ظفر کی کتاب غزلِ خطاطی نظر نواز ہوئی۔ انہوں نے ایک تاریخی کارنامہ کر دکھلایا ہے۔ انہوں نے اپنے روحانی وجدان اور علمی تصرّف کو بروئے کار لاتے ہوئے پورا دیوان اس ایک موضوع پر رقم کر دیا ہے۔ 70 غزلوں میں سے ہر غزل کا محور و منبع ارکانِ خطاطی ہیں۔ انہوں نے الف سے لے کر ’ی‘ تک ہر حرف کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ نہ صرف خطاطی کی پوری تاریخ اشعار میں سمو دی ہے بلکہ زبر زیر پیش شد، مد، جزم جیسے سبھی اعراب اور نقطہ سے لے کر نشست و کرسی کی تمام علامتیں اشعار میں بڑے کمالِ فن سے رقم کر دی ہیں۔ ان کی ایک غزل کا مطلع ہے جس میں خطاطی پر ایک معروف فارسی شعر کے دوسرے مصرعے ’’ می نویس و می نویس و می نویس‘‘ کی شباہت ملتی ہے۔
اپنے پرکھوں کی روایت کا اثر آئے گا لکھتے لکھتے ہی تو لکھنے کا ہنر آئے گا
جناب صابر ظفر نے خط کی تاریخ کو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر بالترتیب اپنے ان اشعار میں یوں قلمبند کیا ہے۔
وہی ہیں حضرتِ آدمؑ کی اولیں الواح
نقوش جن کے ملے زیر خاک اینٹوں سے
لکھی گئیں جو تکونے قلم سے تحریریں
وہ مستعار ہیں بابل کے رہنے والوں سے
اگرچہ حضرتِ ادریس ؑ موجدِ خط تھے
مگر ’’قبیلۂ طے‘‘ کا بھی اس میں حصّہ لکھ
وہ سارے کتبے جو کوہِ بے ستوں سے ملے
ظفر انہیں ’’خطِ میخی‘‘ کا ہی نمونہ لکھ
نقوش جن کے ملے زیر خاک اینٹوں سے
لکھی گئیں جو تکونے قلم سے تحریریں
وہ مستعار ہیں بابل کے رہنے والوں سے
اگرچہ حضرتِ ادریس ؑ موجدِ خط تھے
مگر ’’قبیلۂ طے‘‘ کا بھی اس میں حصّہ لکھ
وہ سارے کتبے جو کوہِ بے ستوں سے ملے
ظفر انہیں ’’خطِ میخی‘‘ کا ہی نمونہ لکھ
صابر ظفر خطاطی کے فن سے اپنی والہانہ اُلفت اور رغبت کا اِظہار کرتے ہوئے اس شعر میں خطاطی کی عظمت کا اعتراف اور نیک تمنا کا اِظہار بھی کر رہے ہیں کہ خطاطی کو کبھی زوال نہیں چاہے کمپیوٹر کیلی گرافی فن خطاطی پر غالب آنے کے عمل میں ہے۔ کہتے ہیں:
روحِ اسلام کا یہ پوری طرح ہے عکاس
فنِ خطاطی اسی واسطے ہے اثباتی
فنِ خطاطی اسی واسطے ہے اثباتی
زمانۂ قدیم میں کسی بڑے پرندے کے پر کو اوزاری ذریعہ بنا کر لکھائی کی جاتی رہی، اس متروک قدامت کو صابر ظفر صاحب نے شعر میں کس طرح زندہ کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
پر سے لکھتا ہوں کہ اب یہ ہی قلم ہے میرا
لفظ طائر کی طرح اُڑتا ہو الگتا ہے
لفظ طائر کی طرح اُڑتا ہو الگتا ہے
یہاں اُڑتے ہوئے کی اصطلاح کو کس حسنِ بیان کے ساتھ رقم کیا ہے۔ پھر ملاحظہ کیجئے کہ جب خلافتِ عباسیہ کے دور میں عظیم تخلیق کار خطاط ابنِ مقلہ بیضاوی جنہوں نے بنیادی چھ طرز ہائے خطاطی زمانے کو ایسے مرصع ایسے مکمل دیں کہ آج تک ان میں سے اکثر مروّج و مقبول خط چلے آرہے ہیں۔ ساتویں صدی ہجری میں اسی ابنِ مقلہ کے ہاتھ کاٹ دئیے جاتے ہیں۔ گویا انہیں سیاسی چپقلش اور ظلم کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ اس واقعۂ فاجعہ کو کس حسنِ ادا سے قلمبند کر کے تاریخِ غزل میں اَمر کر دیا گیا ہے۔ اور اس پر اپنا دکھ بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
دستِ خطاط قلم ہونے پہ روتا ہوں ظفر
کتنے ظالم ہیں جنہیں ظلم روا لگتا ہے
کتنے ظالم ہیں جنہیں ظلم روا لگتا ہے
اگلی غزل سے ایک اور شعر اسی حوالہ سے یوں لکھتے ہیں:
ہاتھ کٹنے پہ بھی اے نوکِ قلم
ابنِ مقلہ نے قیامت لکھا
ابنِ مقلہ نے قیامت لکھا
روایت ہے کہ ہاتھ کٹ جانے کے بعد بازو سے قلم باندھ کر بھی ابنِ مقلہ بڑا کمال لکھتے تھے۔
آج جس طرح لوگ خطاطی کے جوبن سے بے بہرہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے بڑوں کو معلوم تھا کہ خطاطی سیکھنے والے قطوں کے راز سے کس طرح واقفیت حاصل کرتے ہیں اور کس طرح ان کی خفتہ صلاحیتیں اُجاگر ہوجاتی ہیں۔ اسی لئے وہ اپنے بچوں کو خطاطی کی باقاعدہ تربیت کیلئے کسی دارالتحریر پر بھیجتے تھے تب ان کا قلم روانی سے چلتا تھا مگر اب کی پود کو تو سِرے سے لکھنا ہی نہیں آتا اسی درد کو محسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
کاش تم آؤ کبھی جانب دارالتحریر
خوش خطی سیکھو قلم چلتا نظر آئے گا
خوش خطی سیکھو قلم چلتا نظر آئے گا
ایک غزل کا مطلع اس حسنِ ادا سے رقم کرتے ہیں کہ ’’نون‘‘ کے دائرے اور مرکزی نقطے کو باکمال طریقے اور جمالیاتی اظہار سے موضوع بنایا ہے اور خوبصورت لکھائی کرنے والے خطاط کو سر چشمۂ محبت سے تشبیہ دی ہے۔ لکھتے ہیں:
کسی خطاطِ محبت کا لکھا لگتا ہے
نون کو دیکھوں تو آویزہ ترا لگتا ہے
نون کو دیکھوں تو آویزہ ترا لگتا ہے
’’غزلِ خطاطی‘‘ میں اتنی عظیم الشان غزلیں جو کہ ساری کی ساری خطاطی کی مربوط تاریخ کا بھی حوالہ ہیں بلکہ یوں کہئے کہ فنِ خطاطی کی مکمل منظوم تاریخ ہے۔ اور چالیس کے لگ بھگ ان کی تخلیقات شعری جو کہ نہایت منفرد ہیں تحریر کرنے کے باوجود جنابِ صابر ظفر کی انکساری کا عالم یہ ہے کہ ایک غزلِ خطاطی کے مقطع میں یوں گفتار کرتے نظر آتے ہیں۔
کچھ اور لکھنے کی نوبت پھر آتی کیسے ظفر
الف ہی لکھنا نہیں آیا ہم کو برسوں سے
الف ہی لکھنا نہیں آیا ہم کو برسوں سے
جس طرح خواجہ غلام فرید کوٹ مٹھن والی سرکار نے فرمایا تھا: ’’ہِک الف ہِکو ہم بٖس وے میاں جی‘‘ یعنی ایک الف ہی بس میرے لئے کافی ہے اس کا بھید سمجھد آجائے تو بہت ہے۔
خطِ نستعلیق جو کہ جمالیاتِ خطاطی میں نہایت نفاست، نزاکت، نوک پلک، کششوں اور حسین بیضوی دائروں کا اور نشست و کرسی کا عظیم سنگم ہے۔ اس کی کیا ہی بات ہے۔ فی زمانہ مقبول و مروّج سات خطوط کوفی، رقعہ، دیوانی، نسخ، ثلث، تعلیق کا تتمّہ خطِ نستعلیق پر ہوتا ہے۔ یہ بھی اَمر واقعہ ہے کہ راقم (ابنِ کلیم) نے ایک نیا طرزِ تحریر ’’خطِ رعنا‘‘ کے نام سے ایجاد کیا ہے اور مذکورہ ساتوں خطوں (طرز ہائے تحریر) کی جمالیاتی جھلک اس میں موجود ہے۔ گویا ’’نسخ اور تعلیق‘‘ کا مرقع جس طرح نستعلیق ہے اسی طرح خطِ رعنا مروّجہ سارے خطوط کا مرقع بھی ہے اور اس میں جدّت طرازی بھی ہے۔ اور خطِ نستعلیق جو ساتویں صدی ہجری میں میر علی تبریزی نے تخلیق کیا اس کو جِلا بخشی اس کی جلوہ آرائی ایسی ہے کہ آنکھوں میں جذب ہو کر دِل میں سما جاتا ہے۔ مذکورہ مروّجہ سات خطوں کے علاوہ دیگر سینکڑوں خطوط قبل ازیں ماضی میں معرضِ وجود میں آئے تھے جو کسی نہ کسی جھول یا جمالیاتی ذوق کو کھٹکنے کے سبب متروک ہوچکے ہیں۔ مثلاً نستعلیق میں جلی لفظ کے اندر ابری بنادی اور اسے خطِ البری قرار دے دیا یہ لاعلمی ہے۔ اسے خطِ نستعلیق بہ نمونۂ ابری، یا نمونۂ ماہی وغیرہ کہا جائے گا۔
جنابِ صابر ظفر نے نستعلیق کی جمالیات کو اپنی روح میں اُتار لیا ہے اور کچھ اس طرح تعریف کرتے ہیں:
ہے مری روح کے نزدیک ’’خطِ نستعلیق‘‘
بعض خط مُردہ ہیں اور مُردوں کا شمشان ہے گُم
بعض خط مُردہ ہیں اور مُردوں کا شمشان ہے گُم
اگلے شعر میں اسی کی تشریح کے طور پر لکھتے ہیں جس میں خطِ نستعلیق کی چمک دمک کا اظہار اس طرح سے ہے:
بعض الفاظ جو بُجھ جاتے ہیں مِٹ جاتے ہیں
بعض الفاظ چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
بعض الفاظ چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
زبر، زیر، پیش کو شعر میں پرونا بڑا مشکل امر ہے۔ اعراب کے حوالہ سے صابر ظفر نے کس حُسن و خوبی کے ساتھ ایک غزل کا یہ مطلع رقم کیا ہے۔
میں جو کھویا ہوا اعراب کے دفتر میں رہا
عمر بھر زیر، زبر، پیش کے چکر میں رہا
عمر بھر زیر، زبر، پیش کے چکر میں رہا
یہ الگ بات ہے کہ اب کمپیوٹر کیلی گرافی میں زیر، زبر ، پیش کو مصلحتاً ترک کر دیا گیا ہے جس کی بناء پر بے شمار پڑھنے والے منظوم کلام درست پڑھ نہیں پاتے۔ کیونکہ اشعار میں جو حسن اور ابلاغ اور صحیح تلفظ بطورِ خاص زبر، زیر، پیش سے نمایاں ہوتا ہے وہ اب عنقا ہوتا جا رہا ہے۔ اسی غزل کے اگلے شعر میں فرماتے ہیں:
اس طرح جذب رہا جزم کی صورت پیہم
گردشوں میں بھی سدا لفظ کے محور میں رہا
اسی غزل کے ایک شعر میں واوین کا تذکرہ کس انداز سے کرتے ہیں اور کس طرح پناہ تلاش کر رہے ہیں۔
مجھ کو دیتے رہے تحریر میں واوین پناہ
مدّ و جزر آتے رہے پھر بھی میں ساگر میں رہا
مدّ و جزر آتے رہے پھر بھی میں ساگر میں رہا
جناب صابر ظفر کی ہر غزل میں ہر ہر شعر اِس قدر بصیرت افروز انداز میں خطاطی کے ساتھ وِجدانی طور پر منسلک ہے کہ اس کا اظہار اور بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ وہ خطاطی کے متروک ہوتے جانے کا درد محسوس کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
کمپوز ہو رہے ہیں مضامین اب یہاں
لگنے لگے ہیں لوح و قلم خواب کی طرح
لگنے لگے ہیں لوح و قلم خواب کی طرح
خطاطی کے اوزاری ذرائع قلم، قلم تراش، سیاہی، تختی، دوات، روشنائی، سُوف، سیاہی کی ترو تازگی اور روانی، اقسامِ خطاطی غرض یہ کہ ان کا کوئی استعارہ خطاطی سے باہر کا نہیں۔ ’’غزلِ خطاطی‘‘ میں ہمارے نزدیک یہ غزل ہائے خطاطی ہے۔ دیکھئے ایک شعر میں فرماتے ہیں:
سیاہی سوکھنے نہیں دیتا کوئی خطاط
اور ایک میں کہ مرے پاس ہے قلم نہ دوات
اور ایک میں کہ مرے پاس ہے قلم نہ دوات
اور پھر اسی غزل کے اگلے شعر میں لکھتے ہیں:
قلم تراشتا پہنچا تھا میں وہاں کہ لکھوں
کہاں گئے وہ کھلاڑی، بچھا سکیں جو بساط
کہاں گئے وہ کھلاڑی، بچھا سکیں جو بساط
صابر ظفر صاحب نے محبت کی کتاب لکھنے والے سے کس قدر وَالہانہ اپنائیت اور پیار کا اِظہار کیا ہے۔ اسی غزل کے مقطع میں یوں لکھتے ہیں:
نجانے کس نے لکھا پہلی بار پریم گرنتھ
پتہ چلے تو ظفر چوم لوں میں اِس کے ہاتھ
پتہ چلے تو ظفر چوم لوں میں اِس کے ہاتھ
یقین جانئے کہ ’’غزل خطاطی‘‘ کا سارا مجموعہ صابر ظفر صاحب نے خونِ جگر سے رقم کیا ہے۔ خطاطی کے حوالہ سے اس قدر کامل معلومات کسی خطاط کو بھی شاید میّسر نہ ہوں جو پہلے انہوں نے حاصل کیں۔ اس اَمر کا اظہار وہ اپنے اِس شعر میں یوں کر رہے ہیں:
جو لفظ لکھتے ہوئے روشنائی سوکھتی ہے
میں ان کو اپنے لہو کی نمی سے لکھتا ہوں
اور کہیں وہ پورے اعتماد کے ساتھ اور اپنے فن کے اظہار کیلئے یقینِ کامل کے ساتھ پورے عزم سے یہ اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
زمینیں لفظوں کی زرخیز میرے واسطے ہیں
جہاں بھی چاہوں گا میں شاعری اُگا لوں گا
جہاں بھی چاہوں گا میں شاعری اُگا لوں گا
اور سوئے ہوئے (کھوئے ہوئے) لفظوں کو کس چابکدستی کے ساتھ بیدار کر دینے کا ہنر رکھتے ہیں:
اگر ملا نہ کوئی اور رتجگے کے لئے
میں سوئے لفظوں کو پوری طرح جگا لوں گا
جناب صابر ظفر نے غزلِ خطاطی کا تحفہ راقم کو اَرسال کیا جو 13اپریل 2013ء کو مِلا۔ مکمل مجموعہ ایک ہی نشست میں پڑھا تو سوائے یہ تبصرہ لکھنے کے کوئی اور کام اچھا نہیں لگا۔ کیونکہ بقول صابر ظفر :
دولتِ لوح و قلم میرے لئے کافی ہے
جمع کرتا ہوں جو رکھتا ہوں سبھی حرف پہ حرف
جمع کرتا ہوں جو رکھتا ہوں سبھی حرف پہ حرف
اور مجھے یقین ہے کہ اپنے ان الفاظ کو خالی فلک کی طرف نہیں اچھال رہا بلکہ جنابِ صابر ظفر کے حضور نذر کر رہا ہوں۔ جبکہ ان کا فرمان کچھ اس طرح سے ہے:
بھروں گا مٹھی میں الفاظ، جگنوؤں کی طرح
اور ان کو خالی فلک کی طرف اُچھالوں گا