طارق شاہ
محفلین
غزلِ سیّدعابدعلی عابد
برمصرعِ حافظ شیرازی
دن ڈھلا، شام ہُوئی، پُھول کہِیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے
وہ کڑی دُھوپ کے دن، وہ تپشِ راہِ وفا
وہ سوادِ شبِ گیسُو کے گھنیرے سائے
دولتِ طبعِ سُخن گو، ہے امانت اُس کی
جب تری چشمِ سُخن ساز طلب فرمائے
جُسْتجُوئےغمِ دَوراں کو خِرد نکلی تھی
کہ جُنوں نےغمِ جاناں کے خزینے پائے
سب مجھے مشورۂِ ترکِ وفا دیتے ہیں
اُن کا ایما بھی ہو شامل تو مزہ آجائے
کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اُسے
نہ کبھی بُھولنے پاؤں، نہ مجھے یاد آئے
میں نے حافِظ کی طرح، طے یہ کِیا ہےعابد
٠بعد ازِیں مے نہ خورم بے کفِ بزم آرائے٠
سیّدعابدعلی عابد