محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کی ایک غزل احباب کی خدمت میں
طلسمِ شامِ خزاں نہ ٹوٹے گا دل کو یہ اعتبار سا ہے
طلوعِ صبحِ بہار کا پھر نہ جانے کیوں انتظارسا ہے
ترے تصور میں غرق ہوں میں ترا ہی قرب و جوار سا ہے
خزاں صفت شامِ غم کو میں نے بنا لیا خوشگوار سا ہے
فریبِ دنیا عیاذ باللہ غمِ زمانہ کی سازشیں اف
قرار کی صورتوں میں بھی اب مرا یہ دل بے قرار سا ہے
اسی سے ہے شورشِ زمانہ اسی سے رسوائیِ عدم بھی
برا ہوا یہ ہمیں جو کچھ کچھ کہیں کہیں اختیار سا ہے
بہار آئی ہے تو ہمیں کیا جو تو نہیں ہے تو ہے عبث سب
کلی کلی سوگوار سی ہے نظرؔ میں ہر پھول خار سا ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
طلوعِ صبحِ بہار کا پھر نہ جانے کیوں انتظارسا ہے
ترے تصور میں غرق ہوں میں ترا ہی قرب و جوار سا ہے
خزاں صفت شامِ غم کو میں نے بنا لیا خوشگوار سا ہے
فریبِ دنیا عیاذ باللہ غمِ زمانہ کی سازشیں اف
قرار کی صورتوں میں بھی اب مرا یہ دل بے قرار سا ہے
اسی سے ہے شورشِ زمانہ اسی سے رسوائیِ عدم بھی
برا ہوا یہ ہمیں جو کچھ کچھ کہیں کہیں اختیار سا ہے
بہار آئی ہے تو ہمیں کیا جو تو نہیں ہے تو ہے عبث سب
کلی کلی سوگوار سی ہے نظرؔ میں ہر پھول خار سا ہے
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی