غزلیات: استاذِمحترم ،محمد وارث صاحب، سیالکوٹ
نوٹ۔1: ( جو غزلیں کسی مخصوص پس منظر میں لکھی گئی تھیں، ان کا پس منظر حذف کیا گیا ہے)
نوٹ۔2 : (یہ غزلیں/ کلام ایک جگہ جمع کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو تلاش کی زحمت سے بچایا جائے)۔(عبدالعزیز راقم)
ایک تازہ غزل
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
ایک نئی غزل
نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
ایک تازہ غزل
آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
رباعی
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
غزل
بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے
نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی، حیف، مجھ پہ طاری ہے
یہی متاع ہے میری، یہی مرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
زبانِ حق گو نہ تجھ سے رکے گی اے زردار
جنونِ عشق پہ سرداری کب تمھاری ہے
اسد نہ چھوڑنا تُو دامنِ وفا داراں
زمیں کی مانگ اسی جہد نے سنواری ہے
میری ایک نئی غزل
چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن
ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟
سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن
قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
میری ایک پرانی غزل
یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے
پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے
میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے
دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے
مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
میری ایک تازہ غزل
ایک تازہ غزل جو پچھلے دنوں کہی گئی
عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے
ہم آئے ہیں کشتیاں جلا کر
ڈر اب کسے نین کٹار کا ہے
شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصّہ اس خاکسار کا ہے
رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے
تپش میں اپنی ہی جل رہا ہوں
عذاب دنیا میں نار کا ہے
اسد جو ایسے غزل سرا ہے
کرم فقط کردگار کا ہے
قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام
قطعہ
زینتِ اردو ہے تُو اور شان بھی
رونقِ اردو ہے تُو اور جان بھی
فرض کیجے نیٹ کو گر دنیا تو پھر
کعبۂ اردو ہے تُو، ایمان بھی
رباعی
کیا محفلِ اردو کی کروں میں توصیف
ثانی ہے کوئی جس کا نہ کوئی ہے حریف
دیکھے ہیں کثافت سے بھرے فورم، پر
اک نور کی محفل ہے، ہے اتنی یہ لطیف
میری ایک تازہ غزل
غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں
کیوں ملے مُجھ کو تیسرا درجہ
کیا مرے خوں کا رنگ لال نہیں؟
فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کار و بارِ جنوں وبال نہیں
نظر آتا ہے ہر جمال میں وُہ
اس میں میرا تو کچھ کمال نہیں
مستِ جامِ نگاہِ یار ہوں میں
ہوش جانے کا احتمال نہیں
موت، ڈر، ہار، سب روا لیکن
عشق میں بھاگنا حلال نہیں
خونِ دل بھی جلے گا اس میں اسد
شاعری صرف قیل و قال نہیں
میری ایک غزل
رازِ معراجِ ظاہرا کیا ہے
شانِ احمد، مرے خدا کیا ہے
اس گدائے کوچہء دلبر کو
اَ رِ نی کا یہ آسرا کیا ہے
راہِ عشقِ بتاں میں کب سوچا
ابتدا کیا تھی، انتہا کیا ہے
جلوہ گر ہے جمالِ واحد ہی
ہم نہ جانیں کہ دوسرا کیا ہے
بے خودیء وصال میں بُھولا
اُس سے یہ کہنا کہ رضا کیا ہے
اِس ہنسی سے نہ دھوکہ دو ہم کو
حالِ دل اب تُو سچ بتا کیا ہے
وہ مقامِ بقا پہ ہیں فائز
جانتے ہیں جو کہ فنا کیا ہے
سینہء دو جہاں نما میں اب
دردِ دل کے سوا رہا کیا ہے
حورِ جنت کے آگے اے واعظ
نازنیں کون، دل رُبا کیا ہے
بھوک پھیلی ہے چار سُو یا رب
کھیت میں کنزِ بے بہا کیا ہے
جو اسد ہے غزل سرا ایسے
شرم پھر میرے غالِبا کیا ہے
میری ایک رباعی
انسانِ کبیر کیسے ہے کائنات؟
یا ہیں مجبورِ محض یہ دن اور رات؟
سر مارا بہت مگر نہ پایا یہ راز
اب کھول خدایا تُو ہی مجھ پر سچ بات
میری ایک غزل
اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نا کسی کی مات ہو
بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو
دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
کُل نفی کے ساتھ جو اثبات ہو
زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو
دام دیکھے ہیں وہاں اکثر بچھے
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو
برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
میری ایک رباعی
شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
میری ایک غزل
جلا ہوں عمر بھر سوزِ نہاں میں
رہا ہوں مثلِ گل میں اس جہاں میں
کہوں جس سے میں دل کی بات ساری
تلاش اس کی ہے بحرِ بیکراں میں
لَہک اٹھتے ہیں سب ہی داغ پھر سے
بہار اس دل پہ آتی ہے خزاں میں
نظر آتا ہوں جو پتھّر کی صورت
ہوں کشتہِ وفا عشقِ بتاں میں
بکھرتا پھول مہکا اس ادا سے
کلی کا دل بھی دھڑکا گلسِتاں میں
مکان اک مفلسوں کو دیتے واعظ
محل سو سو جو بخشو لا مکاں میں
یوں تو سامان سارے ہیں سفر کے
امیر اک کی کمی ہے کارواں میں
پرندوں سے ہے سیکھی رمز پیاری
نہیں ہے جمع کچھ بھی آشیاں میں
کبھی تو ملنے آئیں گے ہمیں وہ
یقیں ہے کس قدر آہ و فغاں میں
اسد اب چھوڑ دل کا حال کہنا
ہے رکھا کیا تری اس داستاں میں
میری ایک رباعی
بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندِگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی، سُن لے
میری ایک غزل
دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے
طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے، وہ سلطان نہیں ہے
یہ بات غلَط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے
جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے
سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
میری ایک غزل
نہ دل کو ہے نہ جاں کو ہی قرار اب
جنوں ہو کہ رہا اپنا شعار اب
نظر بدلی تو بدلے سارے منظر
ترا ہی جلوہ ہے اے میرے یار اب
کلی دل کی گئی مرجھا ترے بعد
بلا سے آئے گلشن میں بہار اب
پلائی ہے نظر سے مے جو تو نے
اترنے کا نہیں ساقی خمار اب
کٹی مستانہ کچھ ایسے شبِ ہجر
رہا مجھ کو نہ تیرا انتظار اب
اسد وہ جانتا ہے سب حقیقت
بنے پھرتے ہو جو پرہیزگار اب
نوٹ۔1: ( جو غزلیں کسی مخصوص پس منظر میں لکھی گئی تھیں، ان کا پس منظر حذف کیا گیا ہے)
نوٹ۔2 : (یہ غزلیں/ کلام ایک جگہ جمع کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ کو تلاش کی زحمت سے بچایا جائے)۔(عبدالعزیز راقم)
ایک تازہ غزل
تازہ ہوا کا جھونکا بنایا گیا مجھے
دنیائے بے نمو میں پھرایا گیا مجھے
میں آنکھ سے گرا تو زمیں کے صدف میں تھا
بہرِ جمالِ عرش اُٹھایا گیا مجھے
سازش میں کون کون تھا، مجھ کو نہیں ہے علم
مُصحَف میں اک ہی نام بتایا گیا مجھے
بخشی گئی بہشت مجھے کس حساب میں؟
دوزخ میں کس بنا پہ جلایا گیا مجھے؟
چیخا کبھی جو دہر کے ظلم و ستم پہ میں
قسمت کی لوری دے کے سُلایا گیا مجھے
بیدادِ دہر نے جو کیا سنگ دل ہمیں
تو کربلا دکھا کے رُلایا گیا مجھے
تسخیرِ کائنات کا تھا مرحلہ اسد
یوں ہی نہیں یہ علم سکھایا گیا مجھے
ایک نئی غزل
نہ سرا ملا ہے کوئی، نہ سراغ زندگی کا
یہ ہے میری کوئی ہستی، کہ ہے داغ زندگی کا
یہی وصل کی حقیقت، یہی ہجر کی حقیقت
کوئی موت کی ہے پروا، نہ دماغ زندگی کا
یہ بھی خوب ہے تماشا، یہ بہار یہ خزاں کا
یہی موت کا ٹھکانہ، یہی باغ زندگی کا
یہ میں اُس کو پی رہا ہوں، کہ وہ مجھ کو پی رہا ہے
مرا ہم نفَس ازَل سے، ہے ایاغ زندگی کا
اسد اُس سے پھر تو کہنا، یہی بات اک پرانی
میں مسافرِ شبِ ہجر، تُو چراغ زندگی کا
ایک تازہ غزل
آرزوئے بہار لاحاصِل
عشقِ ناپائدار لاحاصِل
قیدِ فطرت میں تُو ہے پروانے
تیرا ہونا نثار لاحاصِل
ہے شفاعت اگر بُروں کے لیے
نیکیوں کا شمار لاحاصِل
دلِ دنیا ہے سنگِ مرمر کا
لاکھ کر لو پکار، لاحاصِل
شعر و گُل میں ڈھلے اسد لمحے
کب رہا انتظار لاحاصِل
رباعی
ہے تیر سے اُلفت نہ نشانے سے ہمیں
کھونے سے غرَض کوئی، نہ پانے سے ہمیں
سو بار کہے ہمیں سگِ لیلیٰ، خلق
کچھ بھی نہیں چاہیے زمانے سے ہمیں
غزل
بلا کشانِ محبّت کی رسم جاری ہے
وہی اٹھانا ہے پتھر جو سب سے بھاری ہے
نگاہِ شوق نہیں، آہِ صبح و شام نہیں
عجب فسردہ دلی، حیف، مجھ پہ طاری ہے
یہی متاع ہے میری، یہی مرا حاصل
نہالِ غم کی لہو سے کی آبیاری ہے
زبانِ حق گو نہ تجھ سے رکے گی اے زردار
جنونِ عشق پہ سرداری کب تمھاری ہے
اسد نہ چھوڑنا تُو دامنِ وفا داراں
زمیں کی مانگ اسی جہد نے سنواری ہے
میری ایک نئی غزل
چھیڑ دل کے تار پر، کوئی نغمہ کوئی دُھن
امن کی تُو بات کر، آشتی کے گا تُو گُن
ریشہ ریشہ تار تار، چاہے ہوں ہزار بار
سُن مرے دلِ فگار، وصل کے ہی خواب بُن
لوبھیوں کی بستی میں، مایا کے ترازو سے
فیصلہ کرے گا کون، کیا ہے پاپ کیا ہے پُن؟
سانس ہیں یہ چند پَل، آج ہیں نہیں ہیں کل
ہاں امَر وہ ہو گیا، زہر جام لے جو چُن
قریہ قریہ شہر شہر، موج موج لہر لہر
نام تیرا لے اسد، مہرباں کبھی تو سُن
میری ایک پرانی غزل
یہ چلَن دنیا میں کتنا عام ہے
ظلم کا تقدیر رکھّا نام ہے
پھول بکھرے ہوئے تُربت پر نئی
اِس کہانی کا یہی انجام ہے
میرے آبا نے کیا تھا جرم جو
اس کا بھی میرے ہی سر الزام ہے
دشت میں اک گھر بنا رہنے کی چاہ
گھر میں بیٹھے ہیں تبھی تو خام ہے
مسکراتے آ رہے ہیں آج وہ
کیا بھلا ہم مفلسوں سے کام ہے
میری ایک تازہ غزل
ایک تازہ غزل جو پچھلے دنوں کہی گئی
عجب کرشمہ بہار کا ہے
نظر نظر جلوہ یار کا ہے
ہم آئے ہیں کشتیاں جلا کر
ڈر اب کسے نین کٹار کا ہے
شجر کٹا تو جلا وہیں پر
یہ قصّہ اس خاکسار کا ہے
رہے گی نم آنکھ عمر بھر اب
معاملہ دل کی ہار کا ہے
تپش میں اپنی ہی جل رہا ہوں
عذاب دنیا میں نار کا ہے
اسد جو ایسے غزل سرا ہے
کرم فقط کردگار کا ہے
قطعہ
محفِلِ اردو تجھے میرا سلام
اے دِلِ اردو تجھے میرا سلام
اس جہانِ برق، دل و جاں سوز میں
تُو گِلِ اردو، تجھے میرا سلام
قطعہ
زینتِ اردو ہے تُو اور شان بھی
رونقِ اردو ہے تُو اور جان بھی
فرض کیجے نیٹ کو گر دنیا تو پھر
کعبۂ اردو ہے تُو، ایمان بھی
رباعی
کیا محفلِ اردو کی کروں میں توصیف
ثانی ہے کوئی جس کا نہ کوئی ہے حریف
دیکھے ہیں کثافت سے بھرے فورم، پر
اک نور کی محفل ہے، ہے اتنی یہ لطیف
میری ایک تازہ غزل
غم نہیں، دُکھ نہیں، ملال نہیں
لب پہ جو ایک بھی سوال نہیں
کیوں ملے مُجھ کو تیسرا درجہ
کیا مرے خوں کا رنگ لال نہیں؟
فکرِ سُود و زیاں سے ہے آزاد
کار و بارِ جنوں وبال نہیں
نظر آتا ہے ہر جمال میں وُہ
اس میں میرا تو کچھ کمال نہیں
مستِ جامِ نگاہِ یار ہوں میں
ہوش جانے کا احتمال نہیں
موت، ڈر، ہار، سب روا لیکن
عشق میں بھاگنا حلال نہیں
خونِ دل بھی جلے گا اس میں اسد
شاعری صرف قیل و قال نہیں
میری ایک غزل
رازِ معراجِ ظاہرا کیا ہے
شانِ احمد، مرے خدا کیا ہے
اس گدائے کوچہء دلبر کو
اَ رِ نی کا یہ آسرا کیا ہے
راہِ عشقِ بتاں میں کب سوچا
ابتدا کیا تھی، انتہا کیا ہے
جلوہ گر ہے جمالِ واحد ہی
ہم نہ جانیں کہ دوسرا کیا ہے
بے خودیء وصال میں بُھولا
اُس سے یہ کہنا کہ رضا کیا ہے
اِس ہنسی سے نہ دھوکہ دو ہم کو
حالِ دل اب تُو سچ بتا کیا ہے
وہ مقامِ بقا پہ ہیں فائز
جانتے ہیں جو کہ فنا کیا ہے
سینہء دو جہاں نما میں اب
دردِ دل کے سوا رہا کیا ہے
حورِ جنت کے آگے اے واعظ
نازنیں کون، دل رُبا کیا ہے
بھوک پھیلی ہے چار سُو یا رب
کھیت میں کنزِ بے بہا کیا ہے
جو اسد ہے غزل سرا ایسے
شرم پھر میرے غالِبا کیا ہے
میری ایک رباعی
انسانِ کبیر کیسے ہے کائنات؟
یا ہیں مجبورِ محض یہ دن اور رات؟
سر مارا بہت مگر نہ پایا یہ راز
اب کھول خدایا تُو ہی مجھ پر سچ بات
میری ایک غزل
اس جہاں میں ایسی کوئی بات ہو
جیت ہو اور نا کسی کی مات ہو
بس ہوس کے ہیں یہ سارے سلسلے
بابری مسجد ہو یا سُمنات ہو
دے بدل ہر زاویہ وہ دفعتاً
کُل نفی کے ساتھ جو اثبات ہو
زخم دل کے چین سے رہنے نہ دیں
روزِ روشن ہو کہ کالی رات ہو
اسطرح پینے کو مے کب ملتی ہے
ناب ہو، تُو ساتھ ہو، برسات ہو
دام دیکھے ہیں وہاں اکثر بچھے
جس جگہ پر دانے کی بہتات ہو
برملا گوئی کا حاصل ہے اسد
اپنوں کی نظروں میں بھی کم ذات ہو
میری ایک رباعی
شکوہ بھی لبوں پر نہیں آتا ہمدَم
آنکھیں بھی رہتی ہیں اکثر بے نَم
مردم کُش یوں ہوا زمانے کا چلن
اب دل بھی دھڑکتا ہے شاید کم کم
میری ایک غزل
جلا ہوں عمر بھر سوزِ نہاں میں
رہا ہوں مثلِ گل میں اس جہاں میں
کہوں جس سے میں دل کی بات ساری
تلاش اس کی ہے بحرِ بیکراں میں
لَہک اٹھتے ہیں سب ہی داغ پھر سے
بہار اس دل پہ آتی ہے خزاں میں
نظر آتا ہوں جو پتھّر کی صورت
ہوں کشتہِ وفا عشقِ بتاں میں
بکھرتا پھول مہکا اس ادا سے
کلی کا دل بھی دھڑکا گلسِتاں میں
مکان اک مفلسوں کو دیتے واعظ
محل سو سو جو بخشو لا مکاں میں
یوں تو سامان سارے ہیں سفر کے
امیر اک کی کمی ہے کارواں میں
پرندوں سے ہے سیکھی رمز پیاری
نہیں ہے جمع کچھ بھی آشیاں میں
کبھی تو ملنے آئیں گے ہمیں وہ
یقیں ہے کس قدر آہ و فغاں میں
اسد اب چھوڑ دل کا حال کہنا
ہے رکھا کیا تری اس داستاں میں
میری ایک رباعی
بکھرے ہوئے پھولوں کی کہانی سُن لے
ہے چار دنوں کی زندِگانی سُن لے
پیری میں تو ہوتے ہیں سبھی وقفِ عشق
کرتا ہے خراب کیوں جوانی، سُن لے
میری ایک غزل
دنیا میں تری درد کا درمان نہیں ہے
ہر سمت خدا ہیں، کوئی انسان نہیں ہے
طاقت کے نشے میں جو لہو سچ کا بہائے
ظالم ہے، لٹیرا ہے، وہ سلطان نہیں ہے
یہ بات غلَط ہے کہ میں باطل کو نہ جانوں
یہ سچ ہے مجھے اپنا ہی عرفان نہیں ہے
جو آگ سے تیری میں نہیں ڈرتا تو واعظ
حوروں کا بھی دل میں کوئی ارمان نہیں ہے
سوچا ہے اسد اب کسی سے میں نہ ملوں گا
کچھ دوست و عدو کی مجھے پہچان نہیں ہے
میری ایک غزل
نہ دل کو ہے نہ جاں کو ہی قرار اب
جنوں ہو کہ رہا اپنا شعار اب
نظر بدلی تو بدلے سارے منظر
ترا ہی جلوہ ہے اے میرے یار اب
کلی دل کی گئی مرجھا ترے بعد
بلا سے آئے گلشن میں بہار اب
پلائی ہے نظر سے مے جو تو نے
اترنے کا نہیں ساقی خمار اب
کٹی مستانہ کچھ ایسے شبِ ہجر
رہا مجھ کو نہ تیرا انتظار اب
اسد وہ جانتا ہے سب حقیقت
بنے پھرتے ہو جو پرہیزگار اب