مہدی نقوی حجاز
محفلین
یہ غزل لکھتے میں کیوں کہ بطور کامل زبان فارسی سے آزادی نہیں حاصل کرسکا اس خاطر اگر زبان فارسی کے کثیر استعمالسے معیوب نظر آئے تو نظر انداز کیجے گا۔
غزل
اسے دیکھوں تو مری جان میں جاں آتی ہے
دل دھڑکتا ہے تبسم بہ لباں آتی ہے
شافی درد دل و رائد افسانہ ما
اپنی نظروں کو بچھائو کہ یہاں آتی ہے
اسے دلدار کہوں یا کہوں رامش گر غم
مجھے شک ہے ز در پیر مغاں آتی ہے
اب نہیں جاتا ہوں میں بھی سر بزم ساقی
میری محفل میں بھی اب حور جناں آتی ہے
میں نہیں جائوں گا جنت میں اگر ایسا ہے
میری جنت تو خود ہی چل کے یہاں آتی ہے
مجھے اسرار پری خوانی نہیں ہیں معلوم
پر مرے بزم میں وہ ابر پراں آتی ہے
مری ہے روح جواں قلب جواں سوچ جواں
اور مری فکر میں خواہش بھی جواں آتی ہے
"تو ہے معبود محبت میں ہوں عابد تیرا"
میری اصنام پرستی بہ زباں آتی ہے
مری کاواکی دل نے تجھے مغموم کیا
اور مجھ کو نہیں آفت سے اماں آتی ہے
اس کا دل دل ہی نہیں قفسہ گنجشک بھی ہے
یہ وہ پنجرہ ہے کہ جس میں میری جاں آتی ہے
نار نمرود لگی ہے تری خاتر دل میں
تو مری فکر میں کیوں شعلہ فشاں آتی ہے؟
مری اوہام پرستی کی حد آئی ہے، وہ!
مرے خوابوں میں مری سمت دواں آتی ہے
اے حجاز اب ترے اشعار کو سنجیدہ کر
ترے لفظوں میں بوئے بادہ کشاں آتی ہے