غالب کو بخش دو ۔ میرے محترم دوستو ۔
غالب کو گزرے مدت ہوئی ۔ مگر اپنے کلام میں زندہ اور غالب ہے ابھی بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘ مرزا غالب، سعودے پھلا سپھر (فلا سفر) کی نظر میں’
لکھاری: رمیض کرامت علی.
مقصود احمد، رول نمبر چوبیس کا شمار کلاس کے چند ان ہونہار طالب علموں میں ہوتا تھا جن کی ہونھاری کو دنیا ابھی تک دریافت نہیں کر پا ئی تھی. اسی وجہ سے زمانہ ان کو ‘سعود ے پھلا سپھر’ کے نام سے جانتا بلکہ اکثر چھیڑتا ہی تھا. لفظ ’پھلا سپھر’ پنجابی زبان کا ایک لفظ ہے جو ‘فلاسفر’ کی ایک سدھری ہوئی شکل ہے. اگر آپ پنجابی زبان سے تھوڑا سا بھی لگاؤ رکھتے ہوں تو سمجھ جا ئیں گے کہ ‘سعود ے پھلا سپھر’ کو ‘سعود ا فلاسفر’ کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ اور اگرآپ اس باریکی کو نہیں سمجھ سکے تو پھر ‘سعود ے پھلا سپھر’ کی شخصیت اور اس کے اندر کے ’پھلسپھی’، میرا مطلب ہے، فلسفی پر بنی نوح انسان کی کرم نوازئیوں کے اثرات سے محظوظ ہونا، آپ کے بس کی بات نہیں. تو اس سے پہلے کے آپ بور ہونا شروع ہو جا ئیں، میں آپ کو ‘سعود ے پھلا سپھر’ کی فلسفیانہ مہارت کی ایک جھلک دکھاتا ہوں.
دسویں جماعت میں اردو کے استاد ایک دن غالب کی ایک مشھور غزل کے ایک مشھور زمانہ شعر کی تشریح یعنی وضاحت فرما رہے تھے. شعر تھا :
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اور اس پر بحث بلکہ تبصرہ کچھ یوں ہو رہا تھا کہ غالب اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میاں غالب تم نے تو ساری عمر گناہوں اور نافرمانیوں میں گزار دی. اور اب جب الله کی بارگاہ میں جاؤگے تو تمہیں شرمندگی نہیں ہو گی؟
اس پر ’سعود ے پھلا سپھر’ کو اچانک ایک فلاسفری آ ئی. کیوں کہ انسان کو نیند اورفلاسفر کو فلاسفری تو پھانسی کے پھندے پہ بھی آ جاتی ہے. اور جیسے نیند میں جما ئی پہ قابو پانا مشکل ہوتا ہے اسی طرح جب فلاسفری آ جائے، تو بے اختیار بندے کی قلم منہ میں اور چہرہ آسمان کی طرف اٹھ جاتا ہے. اور جب منہ اس طرح آسمان کی طرف چکا میرا مطلب ہے اٹھایا ہوا ہو تو ماسٹر صاحب غصہ بھی فرما سکتے ہیں. اور یہی ہوا.
ماسٹر صاحب: ( ’سعود ے پھلا سپھر’ کو سوچوں میں گم دیکھ کر) جناب مقصود احمد صاحب؟ ( ’سعود ے پھلا سپھر’ سوچوں میں گم اور یہ دیکھ کر ماسٹرجی تھوڑا اونچی آواز میں آواز دیتے ہیں). جناب مقصود احمد صاحب!!
سعود ا پھلا سپھر: (ہڑبڑا کر) جی ماسٹر جی جی!
ماسٹر صاحب: اگرآپ دن میں ‘ان ڈور’ تا رے گن چکے ہوں تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیا سوچ رہے تھے آپ؟ (حالانکہ ماسٹر جی نے خود دن دھاڑے ‘ان ڈور’ چسس ماری تھی پر پھر بھی کلاس کے کچھ چیلا صفت طالب علم ماسٹرجی کی ہر ایک چسس پر ہنس کر داد دینا اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے اور اس ہنسی کی دوسری وجہ ’سعود ے پھلا سپھر’ کی اپنی ریپو بھی تھی. ’سعودا پھلا سپھر’خون کے آنسو پی کر، چیلوں کے اس ٹولے کی طرف گھورتے ہوئے دل ہی دل کہتا ہے کہ میری تو چلو خیر ہے پر آپ کی اس حرکت کو پنجابی میں پتا ہے کیا کہتے ہیں؟ اب اس سے زیادہ میں وضاحت نہیں کر سکتا کیوں کہ لوگ دل ہی دل میں کیا کہ جاتے ہیں؟ وہ سب بتانے لائق نہیں ہوتا. بھر حال اس ٹاپک پر پھر کبھی بات کروں گا. اس وقت بات ہو رہی تھی ماسٹر صاحب کی تازہ ترین چسس کی. حسب عادت اپنی چسس کی داد وصول کر کے ماسٹر صاحب جواب طلب نگاہوں سے ’سعود ے پھلا سپھر’ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں).
ماسٹر صاحب: جی مقصود صاحب کن خیالوں میں گم تھے آپ؟
سعود ا پھلا سپھر: کچھ نہیں ماسٹر جی میں غالب کے اس شعر کی ایک اور تشریح سوچ رہا تھا.
ماسٹر صاحب: مثال کے طور پر؟
سعود ا پھلا سپھر: (تھوڑا ہچکچاتے ہوئے)، جیسے مرزا غالب کوئی اتنے حاجی نمازی تو تھے نہیں تو اس شعرکی تشریح کچھ ایسے بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا بھر سے لوگ کعبے جا کہ اپنے اپنے دلوں کی مرادیں حاصل کرتے ہیں، کوئی جنت کا طلبگار ہوتا ہے اور کوئی دولت کا. لیکن میاں غالب آپ تو کعبے جا کے بھی اپنے محبوب کے ملنے کی ہی دعا کر رہے ہو.یعنی آپ جب کعبے جا کے سب کے سامنے اس طرح کی دعا کرو گے تو بڑی شرمندگی ہو گی نہ؟ (یہ سب کہنے کے بعد مقصود مطلوب نگاہوں سے ماسٹر جی کی طرف دیکھتا ہے. اور کلاس کے سارے سٹوڈنٹ ماسٹرجی کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ایک دفعہ پھر خوب کھلکھلا کے ہنستے ہیں، یہ دیکھ کے مقصود کی نظریں جھک جاتی ہیں کہ بس کرجا سعودے تیری تو لگ گئی).
اب ماسٹر جی کلاس کے تھیٹر میں ایکٹنگ کا یہ موقع بھلا جانے دیتے ہیں؟ جھٹ سے بول پڑے.
ماسٹر جی: بیٹے مقصود!! بڑے بڑے لوگ کتابیں پڑھنے کے لیے لکھتے ہیں، نہ کےبستے میں ڈال کے گلی گلی آوارہ گردی کرنے کے لیے. توجو کتاب پہ لکھا ہے وہ بھی پڑھ لیا کرو کبھی.(اب پھر ایک اور شاندار چسس. پر سٹوڈنٹس کو تو بہانہ چاہیئے تھا. لگے دانت نکالنے ہا ہا ہا ہا).
ہاں جی اب آپ کو لگ رہا ہو گا کہ میں غالب کو اپنی مرضی کی ٹوپی پہناؤں گا یا اس کے اوپر چڑھا پینٹ اتاروں گا. نہیں! یا آپ کو یہ بتاؤں گا کہ مارکیٹ میں سات سات سات کتابیں ہیں اور ہر ایم اے اردو اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہے کہ وہ ایک گائیڈ چھاپے. نہیں! میں کیوں بتاؤں؟
چلو آج آپ کے دل کی بات ہو جائے. آپ کو گلہ ہے کہ امریکہ کی ہر بات ہم کیوں مان لیتے ہیں؟ پر غالب کے لکھے ہوے ایک شعر کی تشریح تو اپنی عقل سے کرنا سیکھی نہیں. کیوں کہ مرزا جی تولکھ گئے ہیں. پر اس کے ایک ایک شعرکی سات سات طرح سے تشریح کروا کے اپنی نسلوں کی عقلوں پہ تالے لگوا کے ان کوڈنڈے کے زور پہ اپنی مرضی کی تشریح رٹوانے والی قوم کیا خاک فیصلے کرے گی؟ آپ کے سعود ے پھلا سپھر کو اپنی مرضی سے تشریح تو کرنے کوئی نہیں دیتا تو چلے ہو امریکہ سے دو دو ہاتھ کرنے! جس دن ‘سعود ا پھلا سپھر’ اصلی فلسفی بن جائے گا تب بات کرنا. تب تک آسانیاں ملنا اور بانٹنا تو دور کی بات، ہاں یہ دعا کر سکتے ہیں کہ الله ہمیں کم از کم مشکلوں سے بچنے اور مشکلیں نہ بانٹنے کا شرف عطا فرمائے. آمین.