غزل۔۔۔نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ ۔۔۔خالد علیم

نوید صادق

محفلین
خالد علیم

غزل

نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ
جلا رہا ہوں میں اپنے لہو سے دل کا چراغ

اسیرِ حلقہء مہتاب رہنا چاہتا ہوں
یہ رات ڈھونڈ نہ لائے مری سحر کا سراغ

ستارے آنکھ کے منظر پہ کم ٹھہرتے ہیں
ہمارے ہم سخنوں کا ہے آسماں پہ دماغ

کچھ اور ڈالیے ہم تشنگاں کو ضبط کی خو
درک نہ جائے صراحی‘ چھلک نہ جائے ایاغ

چمک اٹھے ہیں تماشائے صد وصال سے بھی
ہمارے دامنِ دل پر کسی کے ہجر کے داغ

نژادِ خاک سے ہوں‘ نقشِ آسماں تو نہیں
زمیں کے چاک سے تجھ کو ملے گا میرا سراغ
۔۔۔۔۔۔۔


خالد علیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ: ماہنامہ بیاض
 

مغزل

محفلین
بہت خوب نوید بھائی ، خالد صاحب کا شکریہ ، مگر کچھ عیوب در آئے ہیں غزلو ا میں ۔
مطلع میں ،فراغ چراغ ۔۔۔ پھر ایاغ کا قافیہ۔ ؟؟؟
(‌ایک بات میرے لیے نئی ہوگی کہ سب قوافی زبر کے ہیں ، ایک ( دو بار ) پیش کا کیو ں ؟؟ کیا ایسا کرنا چائز ہے ؟؟)
 
Top