متلاشی
محفلین
ہم شکوہِ بیدادِ رقیباں نہیں کرتے
ڈھانے سے ستم وہ بھی گریزاں نہیں کرتے
راضی برضا رہتے ہیں جس حال میں رکھے
لیکن گلۂ تنگی داماں نہیں کرتے
یادوں سے تری کرتے ہیں خلوت میں چراغاں
ہم کعبۂ دل کو کبھی ویراں نہیں کرتے
اظہارِ تمنا کا سلیقہ گو نہیں ہے
الفاظ کو لیکن پسِ عنواں نہیں کرتے
رکھتے ہیں گہر ہم بھی نہاں خانۂ دل میں
ہر بزم میں لیکن انہیں افشاں نہیں کرتے
دعویٰ تو نہیں پاکی ٔداماں کا ہمیں پر
جذبات کو خلوت میں بھی عریاں نہیں کرتے
سیکھا ہے یہ سر خونِ جگر اپنا جلا کر
فانی پہ کبھی جان کو قرباں نہیں کرتے
مائل بہ بتاں ہے دلِ کافر جو نصرؔ آج
اس رند کو کیوں صاحب ایماں نہیں کرتے
محمد ذیشان نصرؔ
10-03-2013