گو غزل پر کہنے کو کچھ نہیں رہا اب مگر کچھ رسمی طور پر کہہ لوں کیونکہ ٹیگ کردیا گیا ہوں تو سکوت اختیار کرنا مناسب نہیں لگتا۔
ہم شکوہِ بیدادِ رقیباں نہیں کرتے
ڈھانے سے ستم وہ بھی گریزاں نہیں کرتے
÷÷گریزاں کرنا کی بجائے گریزاں رہنا درست محاورہ ہوتا جیسے پہلے بات ہو چکی۔
دوسرا مصرع یوں کیا جائے تو:
یوں ان کو سرِ عام پشیماں نہیں کرتے
ویسے آپس کی بات ہے۔ رقیب کے ستم کیسے ہوتے ہیں؟ محبوب کے ستم تو ٹھیک تھا۔ بہرحال۔۔۔
راضی برضا رہتے ہیں جس حال میں رکھے
لیکن گلۂ تنگی داماں نہیں کرتے
÷÷ فاعل کون ہے میاں؟؟؟
اور گلۂ تنگی کی ترکیب درست ہے۔
محمد یعقوب آسی صاحب
یادوں سے تری کرتے ہیں خلوت میں چراغاں
ہم کعبۂ دل کو کبھی ویراں نہیں کرتے
÷÷کعبہ سے مراد سمجھنے سے قاصر ہوں۔ اگر کعبہ سے مراد "خانہ" ہی ہے تو "خانۂ دل" زیادہ فصیح ہے۔
پہلا مصرع میرے نزدیک یوں زیادہ رواں ہوگا؛
خلوت میں تری یاد سے کرتے ہیں چراغاں
اظہارِ تمنا کا سلیقہ گو نہیں ہے
الفاظ کو لیکن پسِ عنواں نہیں کرتے
÷÷گو کے بارے میں میری رائے جناب یعقوب آسی والی ہی ہے۔
مفہوم نہیں سمجھ سکا پسِ عنواں سے مراد عنوان سے ہٹ کر کچھ اور بکنا مراد تو نہیں؟
رکھتے ہیں گہر ہم بھی نہاں خانۂ دل میں
ہر بزم میں لیکن انہیں افشاں نہیں کرتے
÷÷افشاں وہ نہیں جو آپ نے باندھا۔
ہائے قافیہ!! عریاں ٹھیک ہے؟
دعویٰ تو نہیں پاکی ٔداماں کا ہمیں پر
جذبات کو خلوت میں بھی عریاں نہیں کرتے
÷÷اس شعر کو شاعر سے بہتر نہیں سمجھ سکتا کوئی تو کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔
سیکھا ہے یہ سر خونِ جگر اپنا جلا کر
فانی پہ کبھی جان کو قرباں نہیں کرتے
÷÷سر بمعنی عشق ہے؟؟
مگر ابلاغ کہاں ہے یار؟
مائل بہ بتاں ہے دلِ کافر جو نصرؔ آج
اس رند کو کیوں صاحب ایماں نہیں کرتے
÷÷"صاحبِ ایمان کرنا" کوئی محاورہ ہے ؟ میرے علم میں نہیں۔ صاحب ایمان ہونا تو ایک الگ بات ہے۔ ہاں پکارا خدا کو جا رہا ہے تو علیحدہ بات ہے۔