زرقا مفتی
محفلین
غزل
ہر چاک اب جگر کا سلا دینا چاہیئے
پُر خار حسرتوں کو جلا دینا چاہئیے
جب عشق کا نصاب ہی تبدیل ہو گیا
تو نام بھی وفا کا مٹا دینا چاہیئے
ہر شخص ہے غلام یہاں اپنے نفس کا
اخلاص کی روش کو بُھلا دینا چاہیئے
برباد ہو چکا ہے مرے دل کا یہ چمن
خوابوں کی تتلیوں کو اُڑا دینا چاہیئے
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اس قدر
تاروں کو اور قمر کو بجھا دینا چاہیئے
اس دیس میں ٹھکانے کے دن بیت ہی گئے
موسم ہے ہجرتوں کا بتا دینا چاہیئے
پندار کی شکست نے بےحال کر دیا
اپنی انا کے بُت کو گرا دینا چاہیئے
آواز اب ضمیر کی سنتا نہیں کوئی
احساس کی چُبھن کو مٹا دینا چاہیئے
ایمان کا ترازو گناہوں سے لد چکا
اب حشر ہی خُدا کو اُٹھا دینا چاہیئے
ہم بوجھ زندگی کا اُٹھائیں گے کب تلک
اب دار پہ جبیں کو جھکا دینا چاہیئے
زرقا ؔمفتی
ہر چاک اب جگر کا سلا دینا چاہیئے
پُر خار حسرتوں کو جلا دینا چاہئیے
جب عشق کا نصاب ہی تبدیل ہو گیا
تو نام بھی وفا کا مٹا دینا چاہیئے
ہر شخص ہے غلام یہاں اپنے نفس کا
اخلاص کی روش کو بُھلا دینا چاہیئے
برباد ہو چکا ہے مرے دل کا یہ چمن
خوابوں کی تتلیوں کو اُڑا دینا چاہیئے
مانوس ہو چکے ہیں اندھیروں سے اس قدر
تاروں کو اور قمر کو بجھا دینا چاہیئے
اس دیس میں ٹھکانے کے دن بیت ہی گئے
موسم ہے ہجرتوں کا بتا دینا چاہیئے
پندار کی شکست نے بےحال کر دیا
اپنی انا کے بُت کو گرا دینا چاہیئے
آواز اب ضمیر کی سنتا نہیں کوئی
احساس کی چُبھن کو مٹا دینا چاہیئے
ایمان کا ترازو گناہوں سے لد چکا
اب حشر ہی خُدا کو اُٹھا دینا چاہیئے
ہم بوجھ زندگی کا اُٹھائیں گے کب تلک
اب دار پہ جبیں کو جھکا دینا چاہیئے
زرقا ؔمفتی