افتخار عارف غزل۔ حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے ۔ افتخار عارف

محمداحمد

لائبریرین
غزل

حامی بھی نہ تھے منکرِ غالب بھی نہیں تھے
ہم اہلِ تذبذب کسی جانب بھی نہیں تھے

اس بار بھی دنیا نے ہدف ہم کو بنایا
اس بار تو ہم شہ کے مصاحب بھی نہیں تھے

بیچ آئے سرِ قریۂ زر جوہرِ پندار
جو دام ملے ایسے مناسب بھی نہیں تھے

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

لو دیتی ہوئی رات سخن کرتا ہو ا دن
سب اس کےلئے جس سے مخاطب بھی نہیں تھے

افتخار عارف
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے​
وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے​

بہت خوب، بہت ہی پیاری غزل ہے خاص طور پہ یہ شعر تو۔ واہ​
 

محمداحمد

لائبریرین
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے


وہ قرض اُتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے



بہت خوب، بہت ہی پیاری غزل ہے خاص طور پہ یہ شعر تو۔ واہ
جو شعر بلال نے لکھا ہے وہی میرا بھی پسندیدہ ہے
واقعی بہت خوب غزل ہے
واہ بہت خوب۔ شکریہ احمد صاحب

:aadab:
 
Top