فرحت کیانی
لائبریرین
غافل ہیں ایسے، سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیر چشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ
مرتے ہیں اُس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طَور سے اس کامِ جاں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
کیا سہل جی سے ہاتھ اُٹھا بیٹھتے ہیں ہائے
یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ!
بُت چیز کیا کہ جس کو خُدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ
منہ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر، محو ہیں میری زباں کے لوگ
میر تقی میر
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیر چشم ہیں کوئے بتاں کے لوگ
مرتے ہیں اُس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طَور سے اس کامِ جاں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
کیا سہل جی سے ہاتھ اُٹھا بیٹھتے ہیں ہائے
یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ!
بُت چیز کیا کہ جس کو خُدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ
منہ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر، محو ہیں میری زباں کے لوگ
میر تقی میر