فرحت کیانی
لائبریرین
فکر و فن کا یوں تو ٹھاٹھیں مارتا دریا ہوں میں
کون لیکن اس کو دیکھے، کس قدر پیاسا ہوں میں
کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا ہے آخر کیا ہوں میں
میں کسی جلوے کا پردہ ہوں کہ خود جلوہ ہوں میں
میں خود اپنے سامنے کچھ بھی سہی اے دل! مگر
مشتری جس کو نہیں ملتا ہے وہ سودا ہوں میں
جس طرح اک اعترافِ جُرم کی تصویر ہو
اُس طرح خاموش تیرے رُوبرُو بیٹھا ہوں میں
یہ نہیں ہے دوپہر یا شام کے سائے کی بات
اپنے سائے سے بہر صُورت بہت چھوٹا ہوں میں
جس چمن کا تنکا تنکا تم اڑا کر لے گئیں
اے ہواؤ! اُس چمن کا آخری تنکا ہوں میں
تم کہ میری محفل آرائی سے دھوکہ کھا گئے
کس طرح تم کو بتاؤں، کس قدر تنہا ہوں میں
ہمکلام، آزاد، مجھ سے اب یہ منظر ہو نہ ہو
صبح کے منظر کو اب بھی دیکھتا رہتا ہوں میں
شعر کے فن سے تو ہوں، آزاد، بیگانہ مگر
صفحۂ کاغذ پہ لکھ دیتا ہوں جو سنتا ہوں میں
جگن ناتھ آزاد
کون لیکن اس کو دیکھے، کس قدر پیاسا ہوں میں
کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا ہے آخر کیا ہوں میں
میں کسی جلوے کا پردہ ہوں کہ خود جلوہ ہوں میں
میں خود اپنے سامنے کچھ بھی سہی اے دل! مگر
مشتری جس کو نہیں ملتا ہے وہ سودا ہوں میں
جس طرح اک اعترافِ جُرم کی تصویر ہو
اُس طرح خاموش تیرے رُوبرُو بیٹھا ہوں میں
یہ نہیں ہے دوپہر یا شام کے سائے کی بات
اپنے سائے سے بہر صُورت بہت چھوٹا ہوں میں
جس چمن کا تنکا تنکا تم اڑا کر لے گئیں
اے ہواؤ! اُس چمن کا آخری تنکا ہوں میں
تم کہ میری محفل آرائی سے دھوکہ کھا گئے
کس طرح تم کو بتاؤں، کس قدر تنہا ہوں میں
ہمکلام، آزاد، مجھ سے اب یہ منظر ہو نہ ہو
صبح کے منظر کو اب بھی دیکھتا رہتا ہوں میں
شعر کے فن سے تو ہوں، آزاد، بیگانہ مگر
صفحۂ کاغذ پہ لکھ دیتا ہوں جو سنتا ہوں میں
جگن ناتھ آزاد