فراز غزل۔ کس قدر آگ برستی ہے یہاں ۔ احمد فراز

فرحت کیانی

لائبریرین
کس قدر آگ برستی ہے یہاں
خلق شبنم کو ترستی ہے یہاں

صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں

رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں

زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں

زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں

احمد فراز
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوبصورت غزل شیئر کی ہے فرحت، ایک ایک شعر لاجواب ہے۔

صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں

زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں

واہ واہ واہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
صرف اندیشۂ افعی ہی نہیں
پھول کی شاخ بھی ڈستی ہے یہاں

رُخ کدھر موڑ گیا ہے دریا
اب نہ وہ لوگ نہ بستی ہے یہاں

زندہ درگور ہُوئے اہلِ نظر
کس قدر مُردہ پرستی ہے یہاں

زیست وہ جنسِ گراں ہے کہ فراز
موت کے مول بھی سَستی ہے یہاں

کیا کہنے
 
Top