غزل۔ کیا کیا خضرِ راہ میسر نہیں آئے۔ حاصل مراد آبادی

فرحت کیانی

لائبریرین
کیا کیا خضرِ راہ میسر نہیں آئے
ہم دشت نوردانِ جنون گھر نہیں آئے

چہروں کی سجاوٹ ہے لباسوں کی نمائش
انسان میں انسان کے جوہر نہیں آئے

اوڑھی ردا اتنی بڑی پاؤں تھے جتنے
ہم حجرہء اوقات سے باہر نہیں آئے

رقصاں تھا جنوں کوچہ و بازار میں لیکن
ہاتھوں میں ہمارے کبھی پتھر نہیں آئے

اے وقت! کہاں تک ترے ہمراہ چلیں ہم
اب تو سمجھ میں تیرے تیور نہیں آئے

میں تشنہ خوددار ہوں پیاسا ہی رہوں گا
جب تک کہ مرے پاس سمندر نہیں آئے

ہر دور نے اپنے کو اُجاگر کیا حاصل
ماضی کے شب و روز پلٹ کر نہیں آئے

حاصل مُراد آبادی
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ واہ

کیا اعلٰی غزل ہے۔ شعر شعر گوہرِ معنی ،یعنی سیپ سیپ موتی۔

بہت خوب!

اور بہت شکریہ فرحت کیانی!
 
حسن کے منظر کا پس منظر سمجھنا چاہئے
پھر اسے محبوب یا دلبر سمجھنا چاہئے

شیشہء دل ٹوٹ بھی سکتا ہے سنگِ جور سے
تم کو میرے دل کو اپنا گھر سمجھنا چاہئے

عشق میں ترکِ طلب کی کوئی گنجائش نہیں
چبھ رہا ہے دل میں کیوں نشتر سمجھنا چاہئے

اور بھی راہیں ہیں یوں تو ان سے ملنے کی مگر
عشق کو ان سب سے بالاتر سمجھنا چاہئے

درد کے رشتے کہاں اس بے حسی کے دور میں
آج کے انسان کو پتھر سمجھنا چاہئے

آہ و زاری شیوہء اہلِ طلب ہے کس لئے
اس حقیقت کو بچشمِ تر سمجھنا چاہئے

خواہشِ تسکینِ دل حاصل یہاں بے سود ہے
زندگی کو عرصہء محشر سمجھنا چاہئے

حاصل مرادآبادی
 

کاشفی

محفلین
کیا کیا خضرِ راہ میسر نہیں آئے
ہم دشت نوردانِ جنون گھر نہیں آئے

چہروں کی سجاوٹ ہے لباسوں کی نمائش
انسان میں انسان کے جوہر نہیں آئے

اوڑھی ردا اتنی بڑی پاؤں تھے جتنے
ہم حجرہء اوقات سے باہر نہیں آئے

رقصاں تھا جنوں کوچہ و بازار میں لیکن
ہاتھوں میں ہمارے کبھی پتھر نہیں آئے

اے وقت! کہاں تک ترے ہمراہ چلیں ہم
اب تو سمجھ میں تیرے تیور نہیں آئے

میں تشنہ خوددار ہوں پیاسا ہی رہوں گا
جب تک کہ مرے پاس سمندر نہیں آئے

ہر دور نے اپنے کو اُجاگر کیا حاصل
ماضی کے شب و روز پلٹ کر نہیں آئے

حاصل مُراد آبادی

بہت ہی خوب۔۔عمدہ۔۔!
 
Top