فرحت کیانی
لائبریرین
کیا کیا خضرِ راہ میسر نہیں آئے
ہم دشت نوردانِ جنون گھر نہیں آئے
چہروں کی سجاوٹ ہے لباسوں کی نمائش
انسان میں انسان کے جوہر نہیں آئے
اوڑھی ردا اتنی بڑی پاؤں تھے جتنے
ہم حجرہء اوقات سے باہر نہیں آئے
رقصاں تھا جنوں کوچہ و بازار میں لیکن
ہاتھوں میں ہمارے کبھی پتھر نہیں آئے
اے وقت! کہاں تک ترے ہمراہ چلیں ہم
اب تو سمجھ میں تیرے تیور نہیں آئے
میں تشنہ خوددار ہوں پیاسا ہی رہوں گا
جب تک کہ مرے پاس سمندر نہیں آئے
ہر دور نے اپنے کو اُجاگر کیا حاصل
ماضی کے شب و روز پلٹ کر نہیں آئے
حاصل مُراد آبادی
ہم دشت نوردانِ جنون گھر نہیں آئے
چہروں کی سجاوٹ ہے لباسوں کی نمائش
انسان میں انسان کے جوہر نہیں آئے
اوڑھی ردا اتنی بڑی پاؤں تھے جتنے
ہم حجرہء اوقات سے باہر نہیں آئے
رقصاں تھا جنوں کوچہ و بازار میں لیکن
ہاتھوں میں ہمارے کبھی پتھر نہیں آئے
اے وقت! کہاں تک ترے ہمراہ چلیں ہم
اب تو سمجھ میں تیرے تیور نہیں آئے
میں تشنہ خوددار ہوں پیاسا ہی رہوں گا
جب تک کہ مرے پاس سمندر نہیں آئے
ہر دور نے اپنے کو اُجاگر کیا حاصل
ماضی کے شب و روز پلٹ کر نہیں آئے
حاصل مُراد آبادی