عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
صابرہ امین بہن کی ایک حالیہ غزل نے مجھے اپنی ایک غزل کی یاد دلا دی جو میں نے سال ۲۰۰۴ء میں کہی تھی . ان کی فرمائش پر وہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
آئینہ مجھ کو پس و پیش میں تکتا کیوں ہے
مجھ میں خامی ہے تو کہنے میں جھجکتا کیوں ہے
جستجو جس کی ہو ایسا تو نہیں کچھ مجھ میں
ایک سایہ مرے اطراف بھٹکتا کیوں ہے
تجھ سے کچھ ربط نہیں ہے تو بھلا تیرا خیال
پھول بن کر مری سانسوں میں مہکتا کیوں ہے
تو نے خود راہِ محبت کو چُنا تھا ، اے دِل
اب یہ تنہائی میں راتوں کی سسکتا کیوں ہے
کون آئیگا مرے پاس ، کسے فرصت ہے
دِلِ دیوانہ ہر آہٹ پہ دھڑکتا کیوں ہے
واقفِ عشق نہیں جو وہ بھلا کیا جانے
موت كے منہ میں بھی پروانہ تھرکتا کیوں ہے
بے ضرر ذرّۂ خاشاک سا میرا یہ وجود
جانے احباب کی آنكھوں میں کھٹکتا کیوں ہے
جیتے جی لاش کی مانند کوئی ہو جائے
اِس قدر جسم رہِ دہر میں تھکتا کیوں ہے
کیسے مانوں کہ بہت خوش ہو یہاں تم عابدؔ
غم نہیں ہے تو پِھر آنكھوں سے ٹپکتا کیوں ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
صابرہ امین بہن کی ایک حالیہ غزل نے مجھے اپنی ایک غزل کی یاد دلا دی جو میں نے سال ۲۰۰۴ء میں کہی تھی . ان کی فرمائش پر وہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
آئینہ مجھ کو پس و پیش میں تکتا کیوں ہے
مجھ میں خامی ہے تو کہنے میں جھجکتا کیوں ہے
جستجو جس کی ہو ایسا تو نہیں کچھ مجھ میں
ایک سایہ مرے اطراف بھٹکتا کیوں ہے
تجھ سے کچھ ربط نہیں ہے تو بھلا تیرا خیال
پھول بن کر مری سانسوں میں مہکتا کیوں ہے
تو نے خود راہِ محبت کو چُنا تھا ، اے دِل
اب یہ تنہائی میں راتوں کی سسکتا کیوں ہے
کون آئیگا مرے پاس ، کسے فرصت ہے
دِلِ دیوانہ ہر آہٹ پہ دھڑکتا کیوں ہے
واقفِ عشق نہیں جو وہ بھلا کیا جانے
موت كے منہ میں بھی پروانہ تھرکتا کیوں ہے
بے ضرر ذرّۂ خاشاک سا میرا یہ وجود
جانے احباب کی آنكھوں میں کھٹکتا کیوں ہے
جیتے جی لاش کی مانند کوئی ہو جائے
اِس قدر جسم رہِ دہر میں تھکتا کیوں ہے
کیسے مانوں کہ بہت خوش ہو یہاں تم عابدؔ
غم نہیں ہے تو پِھر آنكھوں سے ٹپکتا کیوں ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ