جاسمن صاحبہ ، نگاہ کرم اور ذرہ نوازی كے لیے بے حد ممنون ہوں . جزاک اللہ !بہت خوبصورت مضامین ہیں۔ اور خوبصورت ترین انداز بیان۔ ماشاءاللہ۔
ڈھیروں داد قبول کیجیے۔
جستجو جس کی ہو ایسا تو نہیں کچھ مجھ میں
ایک سایہ مرے اطراف بھٹکتا کیوں ہے
تجھ سے کچھ ربط نہیں ہے تو بھلا تیرا خیال
پھول بن کر مری سانسوں میں مہکتا کیوں ہے
بہت خوب ۔اچھے اشعار ہیں۔بے ضرر ذرّۂ خاشاک سا میرا یہ وجود
جانے احباب کی آنكھوں میں کھٹکتا کیوں ہے
"کوئ ہو جائے" کھٹک رہا ہے ۔جیتے جی لاش کی مانند کوئی ہو جائے
یاسر بھائی ، وعلیکم السلام . بھائی ، آپ نے حکم دیا اور خاکسار حاضر ہو گیا . دعا اور داد كے لیے ممنون ہوں . جزاک اللہ . ’کوئی ہو جائے‘ پر آپ کی رائے سَر آنكھوں پر . البتہ ’مانند‘ مذکر اور مونث دونوں طرح سے مستعمل ہے . مونث استعمال کی چند مثالیں دیکھیے :السلام علیکم علوی صاحب
آپ کی کمی محفل میں محسوس ہوتی ہے ،آجایا کریں اپنے تازہ کلام کے ساتھ۔اللہ تعالیٰ آپ کو عافیت دارین سے نوازے ۔آمین۔
بہت خوب ۔اچھے اشعار ہیں۔
"کوئ ہو جائے" کھٹک رہا ہے ۔
"مانند" مذکر ہے ۔
مانند لفظ کے معانی | مانند - Urdu meaning | Rekhta Dictionary
اس کے علاوہ میر کی ایک غزل بھی دیکھیے "کے مانند "ردیف میں :
اے گل نو دمیدہ کے مانند
ہے تو کس آفریدہ کے مانند
ہم امید وفا پہ تیری ہوئے
غنچۂ دیر چیدہ کے مانند
جزاک اللہ خیر 😊یاسر بھائی ، وعلیکم السلام . بھائی ، آپ نے حکم دیا اور خاکسار حاضر ہو گیا . دعا اور داد كے لیے ممنون ہوں . جزاک اللہ
اچھی بات ہے ،پہلے میں بھی اسے مونث سمجھتا تھا لیکن کچھ عرصہ قبل جون ایلیا کا ایک وڈیو مشاعرہ دیکھا جس میں کہہ رہے تھے کہ مانند مذکر ہے ،اسے مونث باندھنا غلط ہے۔واللہ اعلم باالصوابالبتہ ’مانند‘ مذکر اور مونث دونوں طرح سے مستعمل ہے . مونث استعمال کی چند مثالیں دیکھیے :
مکرمی عرفان صاحبب : کچھ عرصے قبل یہاں :ضرورت شعری: پر گفتگو ہورہی تھی۔ اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے سو وہ ہوتی رہے گی۔ محمد احمد صاحب نے اس لڑی میں ایک جگہ اس جانب اشارہ کیا ہے اور میں ان سے متفق ہوں کہ اس شعر میں:ظہیر بھائی ، آپ کی گراں قدر داد کا دلی شکریہ ! میری نگاہ سے ’میں جھجکنا‘ اور ’سے جھجکنا‘ دونوں گزرے ہیں . ’میں جھجکنا‘ کی ایک مثال دیکھیے :
اسے معلوم تھا اک موج مرے سَر میں ہے
وہ جھجکتا تھا مجھے حکمِ سفر دینے میں ( راجندر منچندا بانیؔ )
لیکن غور کرنے پر احساس ہوا کہ ’سے جھجکنا‘ زیادہ روا ہے . لہٰذا آپ کی بات سے متفق ہوں .
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤنگا مگر صبح تو کر جاؤنگا ( اَحْمَد ندیم قاسمی )
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پِھر بھی گلے لگاؤں اسے ( اَحْمَد فراز )
یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا
کرنوں کی طرح جھیل كے سینے میں اُتَر جا ( شہزاد اَحْمَد )
محترمی آپ کسی اور سمت چلے گئے۔جانب - مانند ایک صفت ہے اوران جملوں میں وہ مذکر یا مونث جملے کے فاعل یا سبجیکٹ کے مطابق ہے
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں - یہاں ٰمیں ٰ محذوف ہے یہ جملہ ہے
(میں) زندگی (شمع کی مانند) جلاتا ہوں - تو میں یہاں واحد حاضر مذکر کا صیغہ جس کا فعل جلاتا ہوں ہے - شمع کی مانند صفت ہے
اگر یہ جملہ ہوتا
زندگی شمع کی مانند جلتی ہے - تو اب یہاں جلتی ہے آتا کیونکہ آپ کا سبجیکٹ زندگی ہے جو مونث لفظ ہے
باقی جملوں کا بھی یہی حال ہے
جیسے- یوں خاک کی مانند نہ بکھرتی ( جب اسم مونث ہے ) یوں خاک کی مانند نہ بکھرتا ( جب اسم مذکر ہے )
محترم سرور صاحب ، رائے کا شکریہ !مکرمی عرفان صاحبب : کچھ عرصے قبل یہاں :ضرورت شعری: پر گفتگو ہورہی تھی۔ اس موضوع پر مفصل گفتگو کی ضرورت ہے سو وہ ہوتی رہے گی۔ محمد احمد صاحب نے اس لڑی میں ایک جگہ اس جانب اشارہ کیا ہے اور میں ان سے متفق ہوں کہ اس شعر میں:
اسے معلوم تھا اک موج مرے سَر میں ہے
وہ جھجکتا تھا مجھے حکمِ سفر دینے میں
:حکم سفر دینے میں: کا استعمال :ضرورت شعری: کے تحت شمار کیا جا سکتا ہے۔ ظہیر صاحب ؟
سرور راز
اَرشَد صاحب ، نگاہ کرم اور رائے کا شکریہ ! میں آپ کا موقف پوری طرح سمجھ نہیں سکا . اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ لفظ مانند کی جنس کا تعین جملے کا فاعل کرتا ہے ، تو میری ناچیز رائے میں واقعہ یہ نہیں ہے . اگر ایسا ہوتا تو قاسمی صاحب ، جن کا اَدَبی مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں ، کہتے کہ ’(میں) زندگی شمع كے مانند جلاتا ہوں .‘ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ لفظ مانند کی جنس وہ لفظ طے کرتا ہے جس سے تشبیہ دی جائے . لیکن مثالوں سے یہ دعویٰ بھی صحیح ثابت نہیں ہوتا . مزید تفصیل كے لیے یاسر بھائی کو میرا جواب ملاحظہ فرمائیے .جانب - مانند ایک صفت ہے اوران جملوں میں وہ مذکر یا مونث جملے کے فاعل یا سبجیکٹ کے مطابق ہے
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں - یہاں ٰمیں ٰ محذوف ہے یہ جملہ ہے
(میں) زندگی (شمع کی مانند) جلاتا ہوں - تو میں یہاں واحد حاضر مذکر کا صیغہ جس کا فعل جلاتا ہوں ہے - شمع کی مانند صفت ہے
اگر یہ جملہ ہوتا
زندگی شمع کی مانند جلتی ہے - تو اب یہاں جلتی ہے آتا کیونکہ آپ کا سبجیکٹ زندگی ہے جو مونث لفظ ہے
باقی جملوں کا بھی یہی حال ہے
جیسے- یوں خاک کی مانند نہ بکھرتی ( جب اسم مونث ہے ) یوں خاک کی مانند نہ بکھرتا ( جب اسم مذکر ہے )
یاسر بھائی ، مجھے یاد ہے کہ ایک محفل میں یہ دعویٰ پیش کیا گیا تھا کہ لفظ مانند کی جنس وہ لفظ طے کرتا ہے جس سے تشبیہ دی جائے . لیکن واقعہ یہ ہے کہ شعرا نے مذکر اور مونث دونوں طرح كے الفاظ كے ساتھ ’كے‘ اور ’کی‘ باندھا ہے . مونث الفاظ كے ساتھ ’کی‘ کی مثال میں پہلے ہی دے چکا ہوں . اب مذکر كے ساتھ ’کی‘ کی مثال دیکھیے .محترمی آپ کسی اور سمت چلے گئے۔
یہاں بات چل رہی تھی مانند کے مذکر یامونث ہونے کی۔
یعنی :کے مانند:،: کی طرح: تراکیب اسی طرح لائی جائیں گی چاہے سبجکٹ آبجیکٹ مذکر ہو یا مونث۔مثلا
لڑکا شمع :کے مانند: ہے۔
لڑکی شمع :کے مانند :ہے۔
لڑکا شمع :کی طرح :ہے۔
لڑکی شمع: کی طرح: ہے۔
جناب - کچھ کنفیوژن ضرور ہے - آپ لکھ رہے ہیںاَرشَد صاحب ، نگاہ کرم اور رائے کا شکریہ ! میں آپ کا موقف پوری طرح سمجھ نہیں سکا . اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ لفظ مانند کی جنس کا تعین جملے کا فاعل کرتا ہے ، تو میری ناچیز رائے میں واقعہ یہ نہیں ہے . اگر ایسا ہوتا تو قاسمی صاحب ، جن کا اَدَبی مقام کسی تعارف کا محتاج نہیں ، کہتے کہ ’(میں) زندگی شمع كے مانند جلاتا ہوں .‘ ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ لفظ مانند کی جنس وہ لفظ طے کرتا ہے جس سے تشبیہ دی جائے . لیکن مثالوں سے یہ دعویٰ بھی صحیح ثابت نہیں ہوتا . مزید تفصیل كے لیے یاسر بھائی کو میرا جواب ملاحظہ فرمائیے .
ارشد صاحب ، وضاحت کا شکریہ ! لیکن افسوس کہ آپ کی بات صاف ہونے کی بجائے میرے لیے اور الجھ گئی ہے . ’شمع کی مانند‘ اور ’خاک کی مانند‘ پر میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ جس لفظ سے تشبیہ دی جائے ، وہ ’مانند‘ کی جنس کا تعین نہیں کرتا . تیسرے شعر میں ’پھول‘ مذکر ہے ، مونث نہیں ، اور یہ کہنا مشکل ہے کہ ’مانند‘ کی جنس ’تو‘ طے کر رہا ہے یا ’پھول .‘ چوتھے شعر کی بابَت آپ کیا فرما رہے ہیں ، میں نہیں سمجھ سکا ، لیکن یہاں بھی کوئی قاعدہ واضح نہیں ہے . پانچویں شعر كے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے . غرض یہ کہ جیسا میں نے پہلے عرض کیا ، اِس سلسلے میں کسی اصول كے وجود کا ثبوت نہیں ملتا .جناب - کچھ کنفیوژن ضرور ہے - آپ لکھ رہے ہیں
"غور کیجیے کہ اَحْمَد ندیم قاسمی ’شمع‘ كے ساتھ ’کی‘ لگاتے ہیں اور حمایت علی شاعر ’كے ۔"
جبکہ آپ نے احمد ندیم قاسمی کا جو شعر لکھا تھا اوپر، وہ تھا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیمؔ
بجھ تو جاؤنگا مگر صبح تو کر جاؤنگا ( اَحْمَد ندیم قاسمی )
== میں عالم زبان نہیں ہوں اورآپ سے سیکھنا چاہوں گا - میرے نزدیک جس قاعدہ کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا وہ ان سب مثالوں پر لاگو ہو سکتا ہے - سوائے ایک مثال کے جس کا ذکر میں آخر میں کروں گا- آپ کی بات کہ شاعر کی مرضی ہے کہ وہ کے لگائے یا کی لگائے یہ ایک حد تک صحیح ہے کہ شاعر وہ جملہ کیسے کہنا چاہتا ہے - وہ اسکا فاعل جملے کے فاعل کو کہہ رہا ہے یا صفت کو کہہ رہا ہے -
== زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
جملے کا فاعل "میں" ہے - میں زندگی شمع کی مانند - مفعول/صفت ہے "شمع" شاعر نے اس کے مطابق یہاں مانند کے ساتھ "کی" لگایا ہے -
یوں خاک کی مانند نہ راہوں پہ بکھر جا
== کی اس لیئے کہ مفول "خاک" ہے - جو مونث ہے - یاد رہے میں فاعل سے مراد جملے کا فاعل نہیں کہہ رہا یہ مفعول کے لیئے ہے - مطلب جملہ ہے "خاک کی مانند " تو اس مانند سے پہلے" کی" اس لیئے لگایا ہے کہ خاک مونث ہے -
تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ
== کی اس لیئے کہ فاعل "تو" ہے جو کہ مونث ہے - اور صفت پھول کی مانند میں پھول بھی مونث ہے-
شمع كے مانند اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چُپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ ( حمایت علی شاعر )
== فاعل "لوگ" ہے جو مذکر ہے تو یہ ہے لوگ شمع کے مانند - اور یقینا یہ آپ کے کہنے کے مطابق شاعر کی مرضی ہے -
منزلیں گرد كے مانند اڑی جاتی ہیں
وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا ( فراق گورکھپوری )
== بس یہی وہ شعر ہے جو اس کلیئے پر پورا نہیں اترتا مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ٹائپو ہو گا-
اس کو ہمیں فراق کے دیوان میں دیکھنا چاہییے -