محمد ریحان قریشی
محفلین
آئے کسی کے جی میں نہ جو وہ گماں ہیں ہم
سنتی ہے دیکھتی ہے جو ایسی زباں ہیں ہم
اظہارِ ہست کرنے سے ہم بے نیاز ہیں
رہتے پرے عدم سے ہیں خود اک جہاں ہیں ہم
ہم خوب جانتے ہیں رموزِ حیات کو
دیکھو گے جب بھی بر سرِ نوکِ سناں ہیں ہم
ایسا نہیں کے محرمِ رازِ دہر ہیں بس
مخلوق صد ہزار کے بھی رازداں ہیں ہم
چلتے ہیں اس لیے کہ رہے تندرست جاں
منزل جو خود ہے اپنی وہی کارواں ہیں ہم
عالم کو چھوڑ یارتو گم ہو کے ہم میں دیکھ
لاکھوں جہاں ہیں ہم میں کہ اک کہکشاں ہیں ہم
مفعول فاعلات سے ہیں بے خبر مگر
رکھتے ،جو ہیلیم سی ہے، طبعِ رواں ہیں ہم
اب بھاگتا ہے سایہ بھی خورشید کی طرف
رہ سکتا کون پاس ہے آتش بجاں ہیں ہم
ریحانِ بے مثال کو کرتے رہو تلاش
جو کچھ عیاں ہے اس کے ہی اندر نہاں ہیں ہم
سنتی ہے دیکھتی ہے جو ایسی زباں ہیں ہم
اظہارِ ہست کرنے سے ہم بے نیاز ہیں
رہتے پرے عدم سے ہیں خود اک جہاں ہیں ہم
ہم خوب جانتے ہیں رموزِ حیات کو
دیکھو گے جب بھی بر سرِ نوکِ سناں ہیں ہم
ایسا نہیں کے محرمِ رازِ دہر ہیں بس
مخلوق صد ہزار کے بھی رازداں ہیں ہم
چلتے ہیں اس لیے کہ رہے تندرست جاں
منزل جو خود ہے اپنی وہی کارواں ہیں ہم
عالم کو چھوڑ یارتو گم ہو کے ہم میں دیکھ
لاکھوں جہاں ہیں ہم میں کہ اک کہکشاں ہیں ہم
مفعول فاعلات سے ہیں بے خبر مگر
رکھتے ،جو ہیلیم سی ہے، طبعِ رواں ہیں ہم
اب بھاگتا ہے سایہ بھی خورشید کی طرف
رہ سکتا کون پاس ہے آتش بجاں ہیں ہم
ریحانِ بے مثال کو کرتے رہو تلاش
جو کچھ عیاں ہے اس کے ہی اندر نہاں ہیں ہم
آخری تدوین: