غزل: آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے ٭ تابش

السلام علیکم برادرم تابش !

غزل خوب ہے ما شاء اللہ -باالخصوص یہ شعر:

ضبطِ پیہم سے کہیں پتھر نہ ہو جائے یہ دل
صبر اچھی شے ہے لیکن غم پہ رونا چاہیے

--------
جزاک اللہ خیر
آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے
زندہ رہنے کے لیے اب کچھ تو ہونا چاہیے

:شجر بونا: کم از کم مجھے تو ٹھیک اردو نہیں لگتی -درخت اور شجر لگایا جاتا ہے ،بیج اور تخم بویا جاتا ہے-پہلے مصرعے کی ایک شکل یوں بھی ہو سکتی ہے :

آرزو کا بیج کوئی ہم کو بونا چاہیے
زندہ رہنے کے لیے اب کچھ تو ہونا چاہیے
اس پر ضرور غور کرتا ہوں۔
ہر کس و ناکس کو اپنے دل میں دیتا ہے مقام
مجھ کو بھی تیرے دیارِ دل میں کونا چاہیے

پہلے مصرعے میں ذوق :تو: کا متلاشی ہے ،کچھ اس طرح :

ہر کس و ناکس کو تو دیتا ہے اپنے دل میں جا
مجھ کو بھی تیرے دیارِ دل میں کونا چاہیے
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مصرع سب سے پہلے یوں ہی ہوا تھا
ہر کس و ناکس کو اپنے دل میں جا دیتا ہے تو

پھر شاید کسی مشورہ کے سبب یہ سوچ کر بدل دیا تھا کہ اگلے مصرع میں تیرے سے بات واضح ہو رہی ہے۔

واہ-

حکما کہتے ہیں دماغ ہر وقت کام کرتا ہے یہاں تک کہ سوتے وقت بھی خواب دیکھتا ہے اور مشغول رہتا ہے -اس کو تازہ دم رکھنے اور تھکاوٹ اور اکتاہٹ سے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تبدیلئ شغل (change of task)-

آج آغازِ کارِ نو کر کے
ذہن کو تازہ دم کیا ہم نے

لہٰذا آپ کے <مستعد رہنا ہو> والے شعر سے میری حس مزاح پھڑک اٹھی اور ایک شعر کہہ ڈالا -رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے دوسرا شعر بھی ساتھ نتھی کر دیا -یوں ایک قطعے کی صورت بن گئی -پیش خدمت ہے :

مستعد رہنے کو گر کچھ ہم کو سونا چاہیے
دوسری بیگم کا بند و بست ہونا چاہیے
روٹی کپڑا اور مکاں کی ہائے ذمّے داریاں
بعدِ وصلِ شب تو بس اک بوجھ ڈھونا چاہیے
ہاہا۔ بہت خوب
 
Top