مغزل
محفلین
کچھ عرصہ قبل اس خوبصورت زمین میں مجھ ناچیز سے بھی چند شعر سرزد ہوگئے تھے ، اتفاق سے مجھے حسن عباس رضا کی یہ غزل ایک دوست کی وساطت سے موصول ہوئی سو اعتراف کے طور پر غزل شامل کیے دیتا ہوں۔
غزل
آنکھوں سے خواب، دل سے تمنا تمام شد
تم کیا گئے، کہ شوقِ نظارا تمام شد
کل تیرے تشنگاں سے یہ کیا معجزہ ہوا
دریا پہ ہونٹ رکھے، تو دریا تمام شد
دنیا تو ایک برف کی سل سے سوا نہ تھی
پہنچی ذرا جو آنچ، تو دنیا تمام شد
عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آپڑا
مجنوں کے دل سے حسرت لیلٰی تمام شد
شہرِ دل تباہ میں پہنچوں تو کچھ کھلے
کیا بچ گیا ہے راکھ میں، اور کیا تمام شد
ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے
سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد
اک یاد یار ہی تو پس انداز ہے حسن
ورنہ وہ کار عشق تو کب کا تمام شد
حسن عباس رضا