عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک غزل پیش خدمت ہے . غزل پرانی ہے ، لیکن دیکھیے شاید ایک آدھ شعر کام کا نکل آئے . حسب معمول آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .
غزل
آنکھیں تھیں سرخ ، زَرْد مرے رخ کا رنگ تھا
موسم بہار کا مری حالت پہ دنگ تھا
آئی تھی سُو ئے خار ہوا نذرِ بو لیے
افسوس ، کم نصیب کا دامن ہی تنگ تھا
رقصاں ہے آج راکھ ہوا میں اسی جگہ
محفل میں محوِ رقص جہاں کل پتنگ تھا
اے کاش ، کوئی دیکھتا ہاتھوں کی جھرٌیاں
ہر شخص غرقِ نغمۂ مضراب و چنگ تھا
دِل سے بہت کہا کہ بتوں پر نہ آ ، مگر
اِس شیشہ گاہ کا تو مقدر ہی سنگ تھا
فرہاد و قیس ہی تھے جو مشہور ہو گئے
ورنہ جہاں میں عشق کا انجام ننگ تھا
دریا میں ہنس کو تھی گہر کی تلاش اور
قطرہ ہر ایک زیرِ نگاہِ نہنگ تھا *
اکرام پا كے آج وہ خاموش ہو گئے
کل تک جن اہلِ شہر کا لہجہ دبنگ تھا
عؔابد ملے جو خاک میں ، سب ایک ہو گئے
کوئی کبھی تھا شاہ تو کوئی ملنگ تھا
*دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ (غؔالب)
نیازمند،
عرفان عابدؔ
ایک غزل پیش خدمت ہے . غزل پرانی ہے ، لیکن دیکھیے شاید ایک آدھ شعر کام کا نکل آئے . حسب معمول آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .
غزل
آنکھیں تھیں سرخ ، زَرْد مرے رخ کا رنگ تھا
موسم بہار کا مری حالت پہ دنگ تھا
آئی تھی سُو ئے خار ہوا نذرِ بو لیے
افسوس ، کم نصیب کا دامن ہی تنگ تھا
رقصاں ہے آج راکھ ہوا میں اسی جگہ
محفل میں محوِ رقص جہاں کل پتنگ تھا
اے کاش ، کوئی دیکھتا ہاتھوں کی جھرٌیاں
ہر شخص غرقِ نغمۂ مضراب و چنگ تھا
دِل سے بہت کہا کہ بتوں پر نہ آ ، مگر
اِس شیشہ گاہ کا تو مقدر ہی سنگ تھا
فرہاد و قیس ہی تھے جو مشہور ہو گئے
ورنہ جہاں میں عشق کا انجام ننگ تھا
دریا میں ہنس کو تھی گہر کی تلاش اور
قطرہ ہر ایک زیرِ نگاہِ نہنگ تھا *
اکرام پا كے آج وہ خاموش ہو گئے
کل تک جن اہلِ شہر کا لہجہ دبنگ تھا
عؔابد ملے جو خاک میں ، سب ایک ہو گئے
کوئی کبھی تھا شاہ تو کوئی ملنگ تھا
*دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ (غؔالب)
نیازمند،
عرفان عابدؔ