محسن نقوی غزل-آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا -محسن نقوی

غزل

آہٹ سی ہوئی تھی نہ کوئی برگ ہلا تھا
میں خود ہی سرِ منزلِ شب چیخ پڑا تھا

لمحوں کی فصیلیں بھی مرے گرد کھڑی تھیں
میں پھر بھی تجھے شہر میں آوارہ لگا تھا

تو نے جو پکارا ہے تو بول اٹھا ہوں ، ورنہ
میں فکر کی دہلیز پہ چپ چاپ کھڑا تھا

اب اس کے سوا یاد نہیں جشنِ ملاقات
اک ماتمی جگنو مری پلکوں پہ سجا تھا

یا بارشِ سنگ اب کے مسلسل نہ ہوئی تھی
یا پھر میں ترے شہر رہ بھول گیا تھا

اک جلوہء محجوب سے روشن تھا مرا ذہن
وجدان یہ کہتا ہے وہی میرا خدا تھا

ویراں نہ ہو اس درجہ کوئی موسم گل بھی
کہتے ہیں کسی شاخ پہ اک پھول کھلا تھا

اک تو کہ گرایزاں ہی رہا مجھ سے بہر طور
اک میں ترے نقشِ قدم چوم رہا تھا

دیکھا نہ کسی نے بھی مری سمت پلٹ کر
محسن میں بکھرتے ہوئے شیشوں کی صدا تھا

محسن نقوی​
 
دیکھا نہ کسی نے بھی مری سمت پلٹ کر
محسن میں بکھرتے ہوئے شیشوں کی صدا تھا

واہ کیا بے مثال تشبیہ ہے، مزہ آگیا، بہت خوب
بہت عمدہ غزل ہے، شکریہ
 
Top