غزل - آ ہی جائے سحر خموشی سے - ڈاکٹر سہیل ملک

محمد وارث

لائبریرین
آ ہی جائے سحر خموشی سے
ڈھونڈ لے میرا در خموشی سے

کیجیئے ہم پہ کچھ کرم اپنا
کہہ رہی ہے نظر خموشی سے

چند لمحے جو پاس بیٹھے تھے
کر گئے ہیں اثر خموشی سے

رات کی سن رہا ہوں سرگوشی
دیکھتا ہوں قمر خموشی سے

بات ہولے سے چل نکلتی ہے
پھیلتی ہے خبر خموشی سے

دیکھ طوفان سب پرندے ہی
بند کرتے ہیں پر خموشی سے

منتظر ہیں مکیں مکاں دونوں
دل میں جائیں اتر خموشی سے

شور ہم کو عذاب لگتا ہے
زندگی ہو بسر خموشی سے

کچھ تو کہیئے کہ ہم پشیماں ہیں
آنکھ کیجے نہ تر خموشی سے

رہزنوں کو خبر نہیں دینی
کاٹنا ہے سفر خموشی سے

بند پائیں کہیں نہ دروازہ
لوٹیئے اپنے گھر خموشی سے

(ڈاکٹر سہیل ملک)
 

مرک

محفلین
خاموش رہنا اچھی بات ہے اور وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو خاموش رہتے ہیں زیادہ بولنا اچھی بات نہیں اور بے فالتو بھی خیر غزل بہت اچھی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
رہزنوں کو خبر نہیں دینی
کاٹنا ہے سفر خموشی سے

بہت خوب وارث بھائی ۔ اتنی اچھی غزل کی شئیرنگ کے لیئے بہت بہت شکریہ ۔
 

مغزل

محفلین
شکرکرتے ہیں ہم ببانگِ دہل
بیٹھے رہیئے گا کیا خموشی سے ؟؟

بہت بہت شکریہ جناب۔
 
Top