واہ ۔ بہت خوب راحل بھائی ۔ فراز کی پراپرٹی میں گھس کر خوب اٹکھیلیاں کی ہیں آپ نے ۔
مطلع نے جناح کیپ ٹوپی پہنی ہوئی ہے اسے اتار دیجئے۔ یا تو کہیئے کہ وصل ممکن نہیں یا یوں کہیئے کہ وصل کا امکان نہیں ۔ "وصل کا امکان ممکن نہیں" درست زبان نہیں ہے ۔
تیسرے شعر میں شتر گربہ ہے ۔ اسے بھی دیکھ لیجئے۔
مژگاں کو آپ نے مذکر باندھ دیا ۔ یہ مونث ہے ۔
سنگھار او نگراں کے بارے میں تو بات ہوچکی ۔
حیف اور کذب بیانی والا شعر پڑھ کر مزا نہیں آیا ۔ منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا۔ محبوب خواہ کتنا ہی وعدہ فراموش اور بے وفا ہو یہ تلخ و ترش رویہ اور لہجہ تو غزل کی روایات ( اورعشق کی روایات) کے خلاف ہے ۔
راحل بھائی ، شاعری میں اسلوب بھی شاعرانہ چاہئے ۔کوئی سیدھا سیدھا دشنام پر تھوڑی اترا جاتا ہے ۔
محبوب ہے وعدے بھول گیا ہوگا یا کوئی مجبوری رہی ہوگی ۔ معاف کردیں ، ثواب کا کام ہے ۔