پیاسا صحرا
محفلین
غزل
اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں ، زخم رہگزاروں کے
خلوتوں کے شیدائی، خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو راز پردہ داروں کے
گیسوؤں کی چھاؤں میں ، دل نواز چہرے ہیں
یاحسیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے
پہلے ہنس کے ملتے ہیں ، پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں لوگ، اجنبی دیاروں کے
تم نے صرف چاہا ہے، ہم نے چھو کے دیکھے ہیں
پیرہن گھٹاؤں کے ، جسم برق پاروں کے
شغلِ مے پرستی گو ، جشنِ نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے
ساحر لدھیانوی
اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں ، زخم رہگزاروں کے
خلوتوں کے شیدائی، خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو راز پردہ داروں کے
گیسوؤں کی چھاؤں میں ، دل نواز چہرے ہیں
یاحسیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے
پہلے ہنس کے ملتے ہیں ، پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں لوگ، اجنبی دیاروں کے
تم نے صرف چاہا ہے، ہم نے چھو کے دیکھے ہیں
پیرہن گھٹاؤں کے ، جسم برق پاروں کے
شغلِ مے پرستی گو ، جشنِ نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے
ساحر لدھیانوی