ساحر غزل-اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے -ساحر لدھیانوی

غزل

اس طرف سے گزرے تھے قافلے بہاروں کے
آج تک سلگتے ہیں ، زخم رہگزاروں کے

خلوتوں کے شیدائی، خلوتوں میں کھلتے ہیں
ہم سے پوچھ کر دیکھو راز پردہ داروں کے

گیسوؤں کی چھاؤں میں ، دل نواز چہرے ہیں
یاحسیں دھندلکوں میں پھول ہیں چناروں کے

پہلے ہنس کے ملتے ہیں ، پھر نظر چراتے ہیں
آشنا صفت ہیں لوگ، اجنبی دیاروں کے

تم نے صرف چاہا ہے، ہم نے چھو کے دیکھے ہیں
پیرہن گھٹاؤں کے ، جسم برق پاروں کے

شغلِ مے پرستی گو ، جشنِ نامرادی تھا
یوں بھی کٹ گئے کچھ دن تیرے سوگواروں کے

ساحر لدھیانوی​
 
Top