غزل: آگئے ہیں تنگ اب، اے آسماں، آلام سے ۔۔۔

عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک پرانی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ کچھ بعید نہیں کہ احباب کو کہیں کوئی سقم محسوس ہو کہ غزل کافی پرانی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگئے ہیں تنگ اب، اے آسماں، آلام سے
کیا برا ہے؟ زندگی گزرے اگر آرام سے!

واعظو! طرزِ عمل سے ہی بدلتا قلب ہے
کچھ نہیں حاصل وعید و پند کے کہرام سے!

رندِ مے خانہ ہیں، ہم سے دوستی اچھی نہیں
جوڑنا کیوں چاہتے ہو نام اس بدنام سے

رہزنوں سے تم ذرا ہشیار رہنا ہم نفس!
میں تو واقف تھا رہِ الفت کے ہر ہر گام سے

راستہ مشکل تو ہے، لیکن مزا بھی آئے گا
حوصلہ مت چھوڑیئے اندیشۂِ انجام سے

میں نہیں حیراں، پشیماں کیوں ہو تم دل توڑ کر؟
نام تو تم نے کمایا تھا بہت اس کام سے!

بس خلوصِ دل، بکف ہمت سفر کی شرط تھے
جاوداں وہ بھی ہوئے جو آدمی تھے عام سے

اڑ رہا ہے دل ہواؤں میں مسرت کے سبب
ان کو دیکھا چپکے چپکے جھانکتے کل بام سے

اس کی تصویروں کے لوٹانے پر افسردہ نہیں
حیف! مدت بعد بھی آیا، تو وہ اک کام سے!

چاندنی اوڑھے سرِ شب کون آیا ہے ادھر؟
جھومتا ہوں خودبخود گرچہ پرے ہوں جام سے

کیوں نہ ہوں راحلؔ عقیدت مند ہم دیوبند کے
اس تعلق نے بچایا ہے برے انجام سے​
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک پرانی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ کچھ بعید نہیں کہ احباب کو کہیں کوئی سقم محسوس ہو کہ غزل کافی پرانی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگئے ہیں تنگ اب، اے آسماں، آلام سے
کیا برا ہے؟ زندگی گزرے اگر آرام سے!

واعظو! طرزِ عمل سے ہی بدلتا قلب ہے
کچھ نہیں حاصل وعید و پند کے کہرام سے!

رندِ مے خانہ ہیں، ہم سے دوستی اچھی نہیں
جوڑنا کیوں چاہتے ہو نام اس بدنام سے

رہزنوں سے تم ذرا ہشیار رہنا ہم نفس!
میں تو واقف تھا رہِ الفت کے ہر ہر گام سے

راستہ مشکل تو ہے، لیکن مزا بھی آئے گا
حوصلہ مت چھوڑیئے اندیشۂِ انجام سے

میں نہیں حیراں، پشیماں کیوں ہو تم دل توڑ کر؟
نام تو تم کمایا تھا بہت اس کام سے!

بس خلوصِ دل، بہ کف ہمت سفر کی شرط تھے
جاوداں وہ بھی ہوئے جو آدمی تھے عام سے

اڑ رہا ہے دل ہواؤں میں مسرت کے سبب
ان کو دیکھا چپکے چپکے جھانکتے کل بام سے

اس کی تصویروں کے لوٹانے پر افسردہ نہیں
حیف! مدت بعد بھی آیا، تو وہ اک کام سے!

چاندنی اوڑھے سرِ شب کون آیا ہے ادھر؟
جھومتا ہوں خودبخود گرچہ پرے ہوں جام سے

کیوں نہ ہوں راحلؔ عقیدت مند ہم دیوبند کے
اس تعلق نے بچایا ہے برے انجام سے​
اس کی تصویروں کے لوٹانے پر افسردہ نہیں
حیف! مدت بعد بھی آیا، تو وہ اک کام سے!
واہ واہ
راحلؔ صاحب کیا کہنے؀
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
 
اس کی تصویروں کے لوٹانے پر افسردہ نہیں
حیف! مدت بعد بھی آیا، تو وہ اک کام سے!
واہ واہ
راحلؔ صاحب کیا کہنے؀
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
بہت شکریہ سیما آپا، داد و پذیرائی کے لئے آپ کا ممنون و متشکر ہوں۔ جزاک اللہ۔

دعاگو،
راحلؔ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! بہت خوب راحل بھائی! خوب غزل ہے! مطلع اچھا کہا ہے !

بس خلوصِ دل ، بہ کف ہمت سفر کی شرط تھے
جاوداں وہ بھی ہوئے جو آدمی تھے عام سے

پہلا مصرع کچھ الجھا ہوا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آیا ۔ کچھ روشنی ڈالئے گا ۔
 
واہ ! بہت خوب راحل بھائی! خوب غزل ہے! مطلع اچھا کہا ہے !

بس خلوصِ دل ، بہ کف ہمت سفر کی شرط تھے
جاوداں وہ بھی ہوئے جو آدمی تھے عام سے

پہلا مصرع کچھ الجھا ہوا ہے ۔ سمجھ میں نہیں آیا ۔ کچھ روشنی ڈالئے گا ۔
جزاک اللہ ظہیر بھائی، اظہار پسندیدگی کے لئے ممنون ہوں.
جس مصرعہ کی جانب آپ نے اشارہ کیا، اس میں کتابت کی غلطی ہے، بکف کو بہ کف لکھ دیا ہے.
باقی ہوسکتا ہے کہ یہاں کچھ تعقید بھی محسوس ہورہی ہو...تو للہ اس سے صرف نظر کیجیے، اب اتنی پرانی غزل کی کیا تصحیح کروں :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جزاک اللہ ظہیر بھائی، اظہار پسندیدگی کے لئے ممنون ہوں.
جس مصرعہ کی جانب آپ نے اشارہ کیا، اس میں کتابت کی غلطی ہے، بکف کو بہ کف لکھ دیا ہے.
باقی ہوسکتا ہے کہ یہاں کچھ تعقید بھی محسوس ہورہی ہو...تو للہ اس سے صرف نظر کیجیے، اب اتنی پرانی غزل کی کیا تصحیح کروں :)
راحل بھائی ، بکف تو میں سمجھ گیا تھا لیکن "بکف ہمت" میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ اس سے کیا مراد ہے ؟! اس پر کچھ روشنی ڈالئے گا ۔
 
یہاں دوسرے مصرعے میں ٹائپو ہوگیا شائد تم کے بعد "نے" حذف ہو گیا

باقی نہائت عمدہ کلام ہے، ماشا اللہ
بہت شکریہ شکیلؔ بھائی ۔۔۔ داد و پذیرائی کے لئے شکرگزار ہوں۔
کتابت کی غلطی پر متنبہ کرنے کا بھی شکریہ، آپ نے درست نشاندہی کی۔ اصل مراسلے میں تدوین کردی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
راحل بھائی ، بکف تو میں سمجھ گیا تھا لیکن "بکف ہمت" میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ اس سے کیا مراد ہے ؟! اس پر کچھ روشنی ڈالئے گا ۔
ظہیرؔ بھائی، بکف ہمت سے میری مراد تو یہ تھی کہ ہر طرح کی مشکلات کے سامنے کے لئے ہمہ وقت ہمت جمع رکھی جائے تاکہ حالات کا مقابلہ کیا جاسکے ۔۔۔ شاید یہ مفہوم ادا نہیں ہو پایا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 

فاخر رضا

محفلین
عزیزانِ گرامی، آداب!

ایک پرانی غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر۔ کچھ بعید نہیں کہ احباب کو کہیں کوئی سقم محسوس ہو کہ غزل کافی پرانی ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگئے ہیں تنگ اب، اے آسماں، آلام سے
کیا برا ہے؟ زندگی گزرے اگر آرام سے!

واعظو! طرزِ عمل سے ہی بدلتا قلب ہے
کچھ نہیں حاصل وعید و پند کے کہرام سے!

رندِ مے خانہ ہیں، ہم سے دوستی اچھی نہیں
جوڑنا کیوں چاہتے ہو نام اس بدنام سے

رہزنوں سے تم ذرا ہشیار رہنا ہم نفس!
میں تو واقف تھا رہِ الفت کے ہر ہر گام سے

راستہ مشکل تو ہے، لیکن مزا بھی آئے گا
حوصلہ مت چھوڑیئے اندیشۂِ انجام سے

میں نہیں حیراں، پشیماں کیوں ہو تم دل توڑ کر؟
نام تو تم نے کمایا تھا بہت اس کام سے!

بس خلوصِ دل، بکف ہمت سفر کی شرط تھے
جاوداں وہ بھی ہوئے جو آدمی تھے عام سے

اڑ رہا ہے دل ہواؤں میں مسرت کے سبب
ان کو دیکھا چپکے چپکے جھانکتے کل بام سے

اس کی تصویروں کے لوٹانے پر افسردہ نہیں
حیف! مدت بعد بھی آیا، تو وہ اک کام سے!

چاندنی اوڑھے سرِ شب کون آیا ہے ادھر؟
جھومتا ہوں خودبخود گرچہ پرے ہوں جام سے

کیوں نہ ہوں راحلؔ عقیدت مند ہم دیوبند کے
اس تعلق نے بچایا ہے برے انجام سے​
کئی اشعار سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ ببانگ دہل دیوبند میں پیتے پلاتے ہیں. اس پر ذرا روشنی ڈالیے گا
ویسے اشعار بہت اچھے ہیں
مگر یہ پینے پلانے کے چکر سے نکلیے ورنہ جگر سوزی شروع ہو جائے گی
 
کئی اشعار سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آپ ببانگ دہل دیوبند میں پیتے پلاتے ہیں. اس پر ذرا روشنی ڈالیے گا
ویسے اشعار بہت اچھے ہیں
مگر یہ پینے پلانے کے چکر سے نکلیے ورنہ جگر سوزی شروع ہو جائے گی
کیا فرما رہے قبلہ آپ، کل ملا کر بس ایک شعر میں محض جھومنے کا ذکر کیا تھا، اور وہاں بھی تصریح کردی کہ جام سے دور ہوں :)
 

فاخر رضا

محفلین
رندِ مے خانہ ہیں، ہم سے دوستی اچھی نہیں
جوڑنا کیوں چاہتے ہو نام اس بدنام سے

راستہ مشکل تو ہے، لیکن مزا بھی آئے گا
حوصلہ مت چھوڑیئے اندیشۂِ انجام سے

اڑ رہا ہے دل ہواؤں میں مسرت کے

ہمیں تو یہ سب کے سب مشکوک لگ رہے ہیں
کچھ تو گڑبڑ ضرور ہے
 
Top