جون ایلیا غزل-اپنی منزل کا راستہ بھیجو -جون ایلیا

غزل

اپنی منزل کا راستہ بھیجو
جان ہم کو وہاں بلا بھیجو

کیا ہمارا نہیں رہا ساون
زلف یاں بھی کوئی گھٹا بھیجو

نئی کلیاں جو اب کھلی ہیں وہاں
ان کی خوشبو کو اک ذرا بھیجو

ہم نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
درد بھیجو نہ تم دوا بھیجو

دھول اڑتی ہے جو اس آنگن میں
اس کو بھیجو ، صبا صبا بھیجو

اے فقیرو! گلی کے اس گل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو

شفقِ شام ہجر کے ہاتھوں
اپنی اتری ہوئی قبا بھیجو

کچھ تو رشتہ ہے تم سے کم بختو
کچھ نہیں، کوئی بد دعا بھیجو

جون ایلیا​
 
شکریہ جناب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔



اس شعر کے پہلے مصرعے میں ایک لفظ کم ہے، پلیز پھر دیکھ لیں، شکریہ!

دیکھتا ہوں استادِ گرامی مگر اس وقت جون ایلیا میری پہنچ سے باہر ہے ۔ یعنی کہ کتاب کوئی مانگ کر لے گیا ہے ۔ جونہی آتی ہے میں دیکھ درستگی کر دوں گا۔
استادِ گرامی آپ کی رہنمائی کا بہت بہت شکریہ ۔
 
Top