مجید امجد غزل- اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ - مجید امجد

غزل

اپنے دل کی کھوج میں کھو گئے کیا کیا لوگ
آنسو تپتی ریت میں بو گئے کیا کیا لوگ

کرنوں کے طوفان سے بجرے بھر بھر کر
روشنیاں اس گھاٹ پر ڈھو گئے کیا کیا لوگ

سانجھ سمے اس کنج میں زندگیوں کی اوٹ
بج گئی کیا کیا بانسری رو گئے کیا کیا لوگ

میلی چادر تان کر اس چوکھٹ کے دوار
صدیوں کے کہرام میں سو گئے کیا کیا لوگ

گٹھڑی کال رین کی سونٹی سے لٹکائے
اپنی دھن میں دھیان نگر کو گئے کیا کیا لوگ

میٹھے میٹھے بول میں دوہے کا ہنڈول
سن سن اس کو بانورے ہو گئے کیا کیا لوگ


مجید امجد​
 

زیف سید

محفلین
بہت بہت شکریہ۔ دوہے کی زمین میں کامیاب غزل لکھی ہے مجید امجد نے۔

البتہ اس شعر میں شاید کوئی غلطی رہ گئی ہے۔


سانجھ سمے اس کنج میں زندگیوں کی اوٹ
بج گئی بانسری رہ گئے کیا کیا لوگ


میری کلیاتِ مجید امجد تو نذرِ نقلِ مکانی ہو گئی، اس لیے تصدیق نہیں کر سکتا، لیکن قیاس کہتا ہے کہ “بج گئی کیا کیا بانسری ۔۔۔“ ہو گا۔ از راہِ کرم دیکھ لیجیئے گا تا کہ اگر کوئی گوگل وغیرہ سے ڈھونڈتا ہوا یہاں آئے تو اسے درست متن ملے۔

آداب عرض ہے،

زیف
 
بہت بہت شکریہ۔ دوہے کی زمین میں کامیاب غزل لکھی ہے مجید امجد نے۔

البتہ اس شعر میں شاید کوئی غلطی رہ گئی ہے۔



میری کلیاتِ مجید امجد تو نذرِ نقلِ مکانی ہو گئی، اس لیے تصدیق نہیں کر سکتا، لیکن قیاس کہتا ہے کہ “بج گئی کیا کیا بانسری ۔۔۔“ ہو گا۔ از راہِ کرم دیکھ لیجیئے گا تا کہ اگر کوئی گوگل وغیرہ سے ڈھونڈتا ہوا یہاں آئے تو اسے درست متن ملے۔

آداب عرض ہے،

زیف

بجا ارشاد فرمایا جناب سید صاحب
کلیات مجید امجد میں یہ شعر ایسے ہے

سانجھ سمے اس کنج میں زندگیوں کی اوٹ
بج گئی کیا کیا بانسری رو گئے کیا کیا لوگ

شکریہ جناب غلطی کی نشاندہی کیلیے۔
 
Top