غزل: اگرچہ آرزو لمبی بہت ہے

عزیزانِ من، آداب!

ایک اور تازہ غزل آپ سب کی بصارتوں کی نذر، امید ہے احباب اپنی ثمین رائے سے ضرور آگاہ کریں گے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرچہ آرزو لمبی بہت ہے
ہمیں ان کا تبسم ہی بہت ہے

ابھی رک جاؤ، مت ایمان بیچو
ابھی بازار میں مندی بہت ہے

اسے کہہ دو کہ خنجر پھینک دے اب
زباں کا وار ہی کاری بہت ہے!

تری باتیں اثر کیسے کریں گی
تو سچا ہے، مگر غالی بہت ہے!

ہوا سے کیسے اس کے دم پر الجھیں!
ابھی بنیاد یہ ہلکی بہت ہے

بھلا بھی دیں تمہیں اب! ہم کو بخشو
نگل لی ہجر کی گولی، بہت ہے!

ضروری تو نہیں ہے جسم بھی ہو
خیالِ یار ہے باقی، بہت ہے!

ابھی سے کیسے بھر جائے، کہ یہ دل
ہے چھوٹا سا، مگر خالی بہت ہے!

نم آنکھوں کا سبب اتنا ہے بس، آج
ہوائے سرد میں تیزی بہت ہے

رکیں کیا فیصلہ سننے تلک اب
ہمیں پہچان لہجوں کی بہت ہے!

اب اس کا دل بھی کیا توڑے گا راحلؔ؟
انا کو ٹھیس پہنچا دی، بہت ہے!
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
ابھی رک جاؤ، مت ایمان بیچو
ابھی بازار میں مندی بہت ہے
نیا خیال، بہت عمدہ
نم آنکھوں کا سبب اتنا ہے بس، آج
ہوائے سرد میں تیزی بہت ہے
ہوائے سرد کی تیزی، کیا بات ہے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں راحل بھائی!
"ہوا سے کیسے اس کے دم پر الجھیں" ۔ یہ مصرع کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ یا تو میں اسے ٹھیک نہیں پڑھ رہا یا اس میں کوئی ٹائپو وغیرہ ہے؟!
دوسری بات یہ کہ عموماً غلو کو جھوٹ کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ یعنی اصل بات میں اضافہ کرکے، بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ سو یہ مصرع کہ" تو سچا ہے مگر غالی بہت ہے"کچھ اچھا اثر نہیں چھوڑ رہا کہ سچائی اور غلو باہم متضاد ہی سمجھے جاتے ہیں ۔
 
اسے کہہ دو کہ خنجر پھینک دے اب
زباں کا وار ہی کاری بہت ہے!

رکیں کیا فیصلہ سننے تلک اب
ہمیں پہچان لہجوں کی بہت ہے!

اب اس کا دل بھی کیا توڑے گا راحلؔ؟
انا کو ٹھیس پہنچا دی، بہت ہے!
بہت خوب احسن بھائی۔
سو یہ مصرع کہ" تو سچا ہے مگر غالی بہت ہے"کچھ اچھا اثر نہیں چھوڑ رہا کہ سچائی اور غلو باہم متضاد ہی سمجھے جاتے ہیں ۔
کرشن بہاری نور کا مصرع یاد آ گیا
سچ گھٹے یا بڑھے تو سچ نہ رہے
 

Wajih Bukhari

محفلین
اچھی غزل ہے جس کے لئے داد قبول فرمائیے۔ اگر کچھ تنقید کی جائے، جس کی جانب توجہ آپ ہی نے اپنے ایک مراسلے میں دلوئی تھی، تو کچھ اشعار میں ابہام ہے۔ مثلا بازار والا شعر۔ کیا مندی ہونے سے مراد ہے کہ زمانہ ابھی ایماندار ہوگیا ہے کہ بے ایمانی کا مول نہیں لگائے گا! گولی والا شعر بھی نہیں سمجھ آیا۔ لیکن مجموعی طور پر بہت اچھی کاوش ہے ماشا اللہ
 
واہ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں راحل بھائی!
"ہوا سے کیسے اس کے دم پر الجھیں" ۔ یہ مصرع کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ یا تو میں اسے ٹھیک نہیں پڑھ رہا یا اس میں کوئی ٹائپو وغیرہ ہے؟!
دوسری بات یہ کہ عموماً غلو کو جھوٹ کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ یعنی اصل بات میں اضافہ کرکے، بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ سو یہ مصرع کہ" تو سچا ہے مگر غالی بہت ہے"کچھ اچھا اثر نہیں چھوڑ رہا کہ سچائی اور غلو باہم متضاد ہی سمجھے جاتے ہیں ۔
مکرمی جناب ظہیرؔ صاحب، آداب!
سب سے پہلے تو غزل کو گم گشتگی سے نکالنے کے لئے ممنون ہوں :) آپ کی نگاہ کرم کے طفیل دیگر احباب کی نظر میں بھی یہ تک بندی آگئی۔ داد و تحسین کے لئے سراپا سپاس ہوں، آپ ایسے کاملین فن کی داد اپنے آپ میں کسی اعزاز سے کم نہیں۔ بہت شکریہ۔

"ہوا سے کیسے اس کے دم پر الجھیں" ۔ یہ مصرع کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ۔ یا تو میں اسے ٹھیک نہیں پڑھ رہا یا اس میں کوئی ٹائپو وغیرہ ہے؟!
ٹائپ کی غلطی تو نہیں، ہاں اس کی الف پر کسرہ ہے، جو میں نے عمومی رواج کے زیر اثر نہیں لگایا، اور ’’اِس‘‘ کا اشارہ دوسرے مصرعے میں ’’بنیاد‘‘ کی طرف ہے، مصرعے کا ناقابل فہم ہونا میرے طرزِ بیان کا نقص ہی ہوگا سو معذرت۔

وسری بات یہ کہ عموماً غلو کو جھوٹ کے معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ یعنی اصل بات میں اضافہ کرکے، بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ سو یہ مصرع کہ" تو سچا ہے مگر غالی بہت ہے"کچھ اچھا اثر نہیں چھوڑ رہا کہ سچائی اور غلو باہم متضاد ہی سمجھے جاتے ہیں ۔

سچی بات یہ ہے کہ یہاں آپ کی رائے نے ترد میں ڈال دیا۔ غلو کے معنی اصلا تو مبالغہ آرائی اور بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے ہیں سو یہ محض جھوٹ کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہو سکتا۔ غلو کسی کی سچی تعریف میں بھی کیا جاسکتا ہے، ہاں یہ ہے کہ غلو کے باعث جو بات درست ہو وہ بھی اثر کھو دیتی ہے، اور یہی اس شعر کا مدعا بھی ہے۔ مذہبی لٹریچر میں، خصوصاً رواۃ کی جرح و تعدیل کے باب اکثر یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’فلاں راوی فلاں کی شان میں بہت غلو سے کام لیا کرتا تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مقتدرہ والوں کی لغت میں غلو کے باب میں اسناد میں مندرجہ ذیل عبارت درج ہے۔

علامہ مرحوم کو بھی فقۂ حنفی کی حمایت میں ببہت غلو تھا .
(۱۹۴۳، حیات شبلی، ۷۹) .

اب یہاں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ فقہ حنفی ہی معاذاللہ جھوٹا ہے، جس کی تائید میں علامہ شبلیؒ غلو کیا کرتے ہوں گے؟

بہرکیف، ایک مرتبہ پھر آپ کی توجہ اور اظہار پسندیدگی کے لئے ممنون و متشکر ہوں۔ ایسے ہی گاہے بگاہے نظرِ کرم کرتے رہا کیجئے، ہمارا اور دیگر بہتوں کا بھلا ہوجاتا ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
آخری تدوین:
اچھی غزل ہے جس کے لئے داد قبول فرمائیے۔ اگر کچھ تنقید کی جائے، جس کی جانب توجہ آپ ہی نے اپنے ایک مراسلے میں دلوئی تھی، تو کچھ اشعار میں ابہام ہے۔ مثلا بازار والا شعر۔ کیا مندی ہونے سے مراد ہے کہ زمانہ ابھی ایماندار ہوگیا ہے کہ بے ایمانی کا مول نہیں لگائے گا! گولی والا شعر بھی نہیں سمجھ آیا۔ لیکن مجموعی طور پر بہت اچھی کاوش ہے ماشا اللہ
جناب وجیہ صاحب، آداب!
داد و پذیرائی کے لئے میں شکرگزار ہوں۔ یونہی تنقید کرتے رہا کیجئے تاکہ بزم میں کچھ زندگی کی رمق باقی رہے۔ مندی والے شعر کی مزید وضاحت کرنا مشکل ہے۔ گولی والے شعر میں مقصود محاورے والی ’’کڑوی گولی‘‘ مراد ہے، گویا مدعا یہ ہے کہ ہجر تو ہم نے قبول کرلیا، اب بھول جانے کی فرمائش نہ کرو۔

دعاگو،
راحلؔ
 
Top