انس معین
محفلین
واہ بہت عمدہ غزل راحل بھائی ۔۔۔۔ابھی سے کیسے بھر جائے، کہ یہ دل
ہے چھوٹا سا، مگر خالی بہت ہے!
واہ بہت عمدہ غزل راحل بھائی ۔۔۔۔ابھی سے کیسے بھر جائے، کہ یہ دل
ہے چھوٹا سا، مگر خالی بہت ہے!
بہت شکریہ پیارے بھائی، جزاک اللہواہ بہت عمدہ غزل راحل بھائی ۔۔۔۔
بھائی ، لفظ کا مفہوم اس کے سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے ۔ لغت میں تو لفظ کے متعدد معنی وضاحت اور ابلاغ کے لئےلکھے ہوتے ہیں ۔ لفظ کا محلِ استعمال زبان بولنے اور لکھنے پڑھنے والے متعین و محدود کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہ بظاہر ہم معنی الفاظ میں بھی ہر لفظ کے معنی ذرا مختلف ہوتے ہیں کہ جسے انگریزی میں shades of meaning کہا جاتا ہے ۔ آپ نے اپنے شعر میں غلو کو سچائی کے عین مقابل استعمال کیا ہے سو اس سیاق و سباق میں غلو کامفہوم منفی اسی طرح لیا جائے گا جس طرح میں نے اوپر عرض کیا ۔مکرمی جناب ظہیرؔ صاحب، آداب!
سب سے پہلے تو غزل کو گم گشتگی سے نکالنے کے لئے ممنون ہوں آپ کی نگاہ کرم کے طفیل دیگر احباب کی نظر میں بھی یہ تک بندی آگئی۔ داد و تحسین کے لئے سراپا سپاس ہوں، آپ ایسے کاملین فن کی داد اپنے آپ میں کسی اعزاز سے کم نہیں۔ بہت شکریہ۔
ٹائپ کی غلطی تو نہیں، ہاں اس کی الف پر کسرہ ہے، جو میں نے عمومی رواج کے زیر اثر نہیں لگایا، اور ’’اِس‘‘ کا اشارہ دوسرے مصرعے میں ’’بنیاد‘‘ کی طرف ہے، مصرعے کا ناقابل فہم ہونا میرے طرزِ بیان کا نقص ہی ہوگا سو معذرت۔
سچی بات یہ ہے کہ یہاں آپ کی رائے نے ترد میں ڈال دیا۔ غلو کے معنی اصلا تو مبالغہ آرائی اور بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے ہیں سو یہ محض جھوٹ کے ساتھ تو مخصوص نہیں ہو سکتا۔ غلو کسی کی سچی تعریف میں بھی کیا جاسکتا ہے، ہاں یہ ہے کہ غلو کے باعث جو بات درست ہو وہ بھی اثر کھو دیتی ہے، اور یہی اس شعر کا مدعا بھی ہے۔ مذہبی لٹریچر میں، خصوصاً رواۃ کی جرح و تعدیل کے باب اکثر یہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ’’فلاں راوی فلاں کی شان میں بہت غلو سے کام لیا کرتا تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مقتدرہ والوں کی لغت میں غلو کے باب میں اسناد میں مندرجہ ذیل عبارت درج ہے۔
علامہ مرحوم کو بھی فقۂ حنفی کی حمایت میں ببہت غلو تھا .
(۱۹۴۳، حیات شبلی، ۷۹) .
اب یہاں یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ فقہ حنفی ہی معاذاللہ جھوٹا ہے، جس کی تائید میں علامہ شبلیؒ غلو کیا کرتے ہوں گے؟
بہرکیف، ایک مرتبہ پھر آپ کی توجہ اور اظہار پسندیدگی کے لئے ممنون و متشکر ہوں۔ ایسے ہی گاہے بگاہے نظرِ کرم کرتے رہا کیجئے، ہمارا اور دیگر بہتوں کا بھلا ہوجاتا ہے۔
دعاگو،
راحلؔ
جناب شعر کو اسی مفہوم میں لینے میں کیا امر مانع ہے؟ یعنی ہمارے تحت الشعور تو یہی تاکید مقصود تھی کہ اگر اپنی بات کو معتبر بنانا ہے تو غلو سے کام نہ لو۔دوسری بات یہ کہ کسی شخصیت یا نقطہ نظر کے بارے میں غلو کرنے والے کی نیت اکثر ٹھیک ہی ہوتی ہے ، جھوٹ بولنا مراد نہیں ہوتا۔
بھائی میری بات دوبارہ پڑھ لیجئے ۔جناب شعر کو اسی مفہوم میں لینے میں کیا امر مانع ہے؟ یعنی ہمارے تحت الشعور تو یہی تاکید مقصود تھی کہ اگر اپنی بات کو معتبر بنانا ہے تو غلو سے کام نہ لو۔
لیکن آپ کے شعر میں تو ایسی کوئی صورتحال بیان نہیں ہوئی ہے۔ آپ نے تو بغیرکسی سیاق و سباق کے ایک مطلق بات بیان کی ہے۔کسی شخصیت یا نقطہ نظر کے بارے میں غلو کرنے والے کی نیت اکثر ٹھیک ہی ہوتی ہے