محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
عزیزانِ من، آداب!
بڑے دن بعد کسی تازہ غزل کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔ امید ہے کہ احباب اپنی گراں قدر آرا سے ضرور نوازیں گے۔
دعاگو،
راحلؔ۔
ایسا نہیں کسی نے تقاضا نہیں کیا
بس لَوٹنا انا نے گوارا نہیں کیا
ہم ’’دل سے دل کو راہ‘‘ پہ تکیہ کیے رہے
اور ان کو غم یہ، ہم نے اشارہ نہیں کیا
کچھ دیر کھیل لیتے کھلونا ہی جان کر
دل توڑ کر پر آپ نے اچھا نہیں کیا
نومیدیوں کے بیچ یہ اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا!
بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا
دامن کے تار و پود گو یکسر بکھر گئے
آخر تلک پہ ہم نے یہ میلا نہیں کیا!
مجھ کو ڈرا رہا ہے خدا کی پکڑ سے وہ
جس نے خدا کے نام پہ کیا کیا نہیں کیا!
رودادِ جورِ اہلِ قضا لکھتے کیا، سو بس
صفحے سیاہ کرنا گوارا نہیں کیا!
خنجر تو آستیں میں چھپا لیجیے حضور
ورنہ کہیں گے ہم نے بھروسہ نہیں کیا!
راحلؔ میاں ہیں آج دروں گورِ بے نشان
چپ چاپ جو دی جان، تماشا نہیں کیا!
بڑے دن بعد کسی تازہ غزل کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں ۔۔۔ امید ہے کہ احباب اپنی گراں قدر آرا سے ضرور نوازیں گے۔
دعاگو،
راحلؔ۔
ایسا نہیں کسی نے تقاضا نہیں کیا
بس لَوٹنا انا نے گوارا نہیں کیا
ہم ’’دل سے دل کو راہ‘‘ پہ تکیہ کیے رہے
اور ان کو غم یہ، ہم نے اشارہ نہیں کیا
کچھ دیر کھیل لیتے کھلونا ہی جان کر
دل توڑ کر پر آپ نے اچھا نہیں کیا
نومیدیوں کے بیچ یہ اب سوچتا ہے دل
کیوں اعتبارِ وعدۂ فردا نہیں کیا!
بیٹھے ہیں تیری واپسی کی آس میں وہیں
ہم نے کسی سراب کا پیچھا نہیں کیا
دامن کے تار و پود گو یکسر بکھر گئے
آخر تلک پہ ہم نے یہ میلا نہیں کیا!
مجھ کو ڈرا رہا ہے خدا کی پکڑ سے وہ
جس نے خدا کے نام پہ کیا کیا نہیں کیا!
رودادِ جورِ اہلِ قضا لکھتے کیا، سو بس
صفحے سیاہ کرنا گوارا نہیں کیا!
خنجر تو آستیں میں چھپا لیجیے حضور
ورنہ کہیں گے ہم نے بھروسہ نہیں کیا!
راحلؔ میاں ہیں آج دروں گورِ بے نشان
چپ چاپ جو دی جان، تماشا نہیں کیا!