ردیف کے بارے میں احباب نے درست فرمایا ہے۔ اصول یہ ہے کہ الفاظ کے اس مجموعے کے رااندرحرفِ علت کے اسقاط کا عمل (باستثنائے ہمزہ) ناپسندیدہ ہے جو فعل کی نمائندگی کر رہا ہو۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے، کھا لے گا، رہا ہے، ہو گا وغیرہ میں علیٰ الترتیب ہو، لے، رہا اور ہو کی واؤ، یائے مجہول، الف اور واؤ کا اسقاط معیوب ہے۔ یہ عیب تب اور نمایاں ہو جاتا ہے جب اسقاط کسی دو حرفی لفظ کے اندر واقع ہو جیسا کہ آپ کے ہاں ہوا ہے۔
کسی لفظ کے اندر موجود حرف علت کو گرانا اور زیادہ فاش غلطی ہے۔ مثلاً کالا، نیزہ، چوری وغیرہ کو کلا، نزہ، چری وغیرہ کے وزن پر باندھنا۔ اکثر مبتدی یہ غلطی کرتے دیکھے گئے ہیں۔
ان دونوں اشعار کے مصرع ہائے اولیٰ محلِ نظر ہیں۔ میں پہلے بھی
اسی زمرے میں عرض کر چکا ہوں کہ تسبیغ اور اذالہ سالم بحروں میں وارد نہیں ہوتے۔ مناسب ہے کہ یہ بات ذرا کھول کر بیان کر دی جائے۔
سالم اس بحر کو کہتے ہیں جس میں کسی زحاف کا عمل نہ ہوا ہو اور اس کے اصلی ارکان ہی کو استعمال میں لایا جائے۔ مثلاً ہزج سالم اپنی مثمن حالت میں (یعنی شعر میں آٹھ یا مصرعے میں چار ارکان) مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ہے۔ متدارک بھی اگر سالم ہو اور مثمن استعمال کی جائے تو اس کے ارکان فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ہوں گے۔ سالم کے برعکس مزاحف بحر وہ ہوتی ہے جس میں کسی زحاف کا عمل ہوا ہو۔ مثلاً متدارک میں خبن کا عمل کیا جائے تو متدارک مثمن مخبون (فَعِلُن فَعِلُن فَعِلُن فَعِلُن) ایک مزاحف بحر ہو گی۔
تسبیغ سادہ لفظوں میں وہ زحاف ہے جو کسی مصرعے کے آخر میں آنے والے سببِ خفیف کے متحرک اور ساکن حروف کے درمیان ایک الف کا اضافہ کر دے۔ یعنی فع کو فاع بنا دے یا اسی قسم کی تبدیلی پیدا کرے۔ ہزج میں تسبیغ ہو گی تو اس کا آخری مفاعیلن مفاعیلان ہو جائے گا۔ یعنی لُن کے لام اور نون کے درمیان ایک الف بڑھا دی جائے گی۔ اسی طرح متقارب (فعولن بتکرار) میں تسبیغ سے آخری فعولن فعولان ہو جائے گا۔
تسبیغ کے مقابل اذالہ ایک زحاف ہے جو ایسا ہی عمل وتدِ مجموع میں کرتا ہے۔ یعنی اگر کسی مصرعے کے آخر میں وتدِ مجموع موجود ہو تو اس کے دوسرے متحرک اور ساکن کے درمیان ایک الف کا اضافہ کر دیتا ہے۔ رجز (مستفعلن بتکرار) میں اذالے کا عمل آخری رکن کو مستفعلان بنا دیتا ہے اور متدارک (فاعلن بتکرار) میں آخری رکن کو فاعلان۔
اب ہے یوں کہ تسبیغ اور اذالہ کبھی اکیلے نہیں آتے۔ اگر بحر مزاحف ہو یعنی اس پر پہلے ہی کسی اور زحاف کا عمل ہو چکا ہو تبھی وارد ہوتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں، سالم بحر میں اصولی طور پر آپ آخری رکن کے ساکن سے پہلے الف کا اضافہ نہیں کر سکتے۔ سالم بحر کو کسی کمی بیشی کے بغیر استعمال کرنا راجح ہے۔ اگر تسبیغ یا اذالہ کا عمل مقصود ہو تو وہ کسی اور زحاف کے عمل کے بعد ہی مناسب ہے۔
اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو مذکورہ بالا دونوں مصرعے ناجائز ہیں۔ پہلے شعر میں نہر اور دوسرے میں دراز کا لفظ اذالے کے عمل کا تقاضا کرتے ہیں جو یہاں ممکن نہیں کیونکہ بحر سالم استعمال کی گئی ہے۔
پہلے مصرع کو "وہ نویدؔ آ گئے غیر کی بات میں" کر دیا جائے تو میری ناقص رائے میں زیادہ خوش گوار لگے گا۔