غزل برائے اصلاح۔۔ ( فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

نوید ناظم

محفلین
وہ مرے درد کی بھی دوا نا کرے
اب یوں بھی ہو جہاں میں خدا نا کرے

گھر کے دروازے تو بند ہیں دیر سے
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے

دل بڑا چپ ہے پر ایسا بھی اب نہیں
تیرے کوچے سے گزرے' صدا نا کرے

جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر
ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نا کرے

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سوا کچھ عطا نا کرے

دل وہ ملا ہے اُس کو کہ توبہ بھلی
مرتا دیکھے مجھے تو دعا نا کرے
 

الف عین

لائبریرین
1۔اگر تم مجھ سے پوری طرح واقف ہو چکے ہو تو یہ بھی علم ہو گا کہ میں انکاری ’نہ‘ کو ’نا‘ کے طور پر دو حرفی باندھنا پسند نہیں کرتا۔
2۔ اس کے علاوہ تو، جو کو طویل کھینچنا بھی پسند نہیں۔ جُ اور ت‘ اگر آ سکیں۔
3۔ ’پر‘ بمعنی لیکن کا استعمال بھی مجھے پسند نہیں۔ اگر ’مگر‘ یا ’لیکن‘ یا وگرنہ وغیرہ آ سکے۔ اور الفاظ بدلنے پر اچھی طرح آ سکتا ہے۔
یہ عمومی اصول ہیں اس لیے پہلے لکھ دئے ہیں کہ یاد رہیں۔
اب اگر ردیف قبول کر بھی لی جائے تو باقی اشعار۔۔۔
وہ مرے درد کی بھی دوا نا کرے
اب یوں بھی ہو جہاں میں خدا نا کرے
۔۔ ’یوں بھی‘ کو ’یُبی‘ تقطیع کرنا بھی ناگوار محسوس ہوتا ہے۔

گھر کے دروازے تو بند ہیں دیر سے
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے
۔۔اوپر کا اصول نمبر 2 بطورخاص جب دروازے کی ’ے‘ بھی حذف کر دی جائے۔

دل بڑا چپ ہے پر ایسا بھی اب نہیں
تیرے کوچے سے گزرے' صدا نا کرے
۔۔درست لیکن یہاں بھی ’ایسا بھی‘ پہلے لفظ میں الف کا اسقاط اور ’بھی‘ کی ’ی‘ کا کھینچا جانا مستحسن نہیں۔

جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر
ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نا کرے
۔۔ اصول نمبر 3

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سوا کچھ عطا نا کرے
۔درست

دل وہ ملا ہے اُس کو کہ توبہ بھلی
مرتا دیکھے مجھے تو دعا نا کرے
۔۔بحر میں نہیں آتا۔ تقطیع کر کے دیکھو۔ ’کو کہ‘ میں عیب تنافر بھی ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
1۔اگر تم مجھ سے پوری طرح واقف ہو چکے ہو تو یہ بھی علم ہو گا کہ میں انکاری ’نہ‘ کو ’نا‘ کے طور پر دو حرفی باندھنا پسند نہیں کرتا۔
2۔ اس کے علاوہ تو، جو کو طویل کھینچنا بھی پسند نہیں۔ جُ اور ت‘ اگر آ سکیں۔
3۔ ’پر‘ بمعنی لیکن کا استعمال بھی مجھے پسند نہیں۔ اگر ’مگر‘ یا ’لیکن‘ یا وگرنہ وغیرہ آ سکے۔ اور الفاظ بدلنے پر اچھی طرح آ سکتا ہے۔
یہ عمومی اصول ہیں اس لیے پہلے لکھ دئے ہیں کہ یاد رہیں۔
اب اگر ردیف قبول کر بھی لی جائے تو باقی اشعار۔۔۔
وہ مرے درد کی بھی دوا نا کرے
اب یوں بھی ہو جہاں میں خدا نا کرے
۔۔ ’یوں بھی‘ کو ’یُبی‘ تقطیع کرنا بھی ناگوار محسوس ہوتا ہے۔

گھر کے دروازے تو بند ہیں دیر سے
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے
۔۔اوپر کا اصول نمبر 2 بطورخاص جب دروازے کی ’ے‘ بھی حذف کر دی جائے۔

دل بڑا چپ ہے پر ایسا بھی اب نہیں
تیرے کوچے سے گزرے' صدا نا کرے
۔۔درست لیکن یہاں بھی ’ایسا بھی‘ پہلے لفظ میں الف کا اسقاط اور ’بھی‘ کی ’ی‘ کا کھینچا جانا مستحسن نہیں۔

جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر
ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نا کرے
۔۔ اصول نمبر 3

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سوا کچھ عطا نا کرے
۔درست

دل وہ ملا ہے اُس کو کہ توبہ بھلی
مرتا دیکھے مجھے تو دعا نا کرے
۔۔بحر میں نہیں آتا۔ تقطیع کر کے دیکھو۔ ’کو کہ‘ میں عیب تنافر بھی ہے۔
سبحان اللہ'... آپ نے شفقت فرمائی' بہت شکریہ !! ...بیان شدہ باتوں کی روشنی میں غزل پر مشق کروں گا ...دوبارہ خدمت میں پیش کرتا ہوں انشاءاللہ !!
 

نوید ناظم

محفلین
1۔اگر تم مجھ سے پوری طرح واقف ہو چکے ہو تو یہ بھی علم ہو گا کہ میں انکاری ’نہ‘ کو ’نا‘ کے طور پر دو حرفی باندھنا پسند نہیں کرتا۔
2۔ اس کے علاوہ تو، جو کو طویل کھینچنا بھی پسند نہیں۔ جُ اور ت‘ اگر آ سکیں۔
3۔ ’پر‘ بمعنی لیکن کا استعمال بھی مجھے پسند نہیں۔ اگر ’مگر‘ یا ’لیکن‘ یا وگرنہ وغیرہ آ سکے۔ اور الفاظ بدلنے پر اچھی طرح آ سکتا ہے۔
یہ عمومی اصول ہیں اس لیے پہلے لکھ دئے ہیں کہ یاد رہیں۔
اب اگر ردیف قبول کر بھی لی جائے تو باقی اشعار۔۔۔
وہ مرے درد کی بھی دوا نا کرے
اب یوں بھی ہو جہاں میں خدا نا کرے
۔۔ ’یوں بھی‘ کو ’یُبی‘ تقطیع کرنا بھی ناگوار محسوس ہوتا ہے۔

گھر کے دروازے تو بند ہیں دیر سے
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے
۔۔اوپر کا اصول نمبر 2 بطورخاص جب دروازے کی ’ے‘ بھی حذف کر دی جائے۔

دل بڑا چپ ہے پر ایسا بھی اب نہیں
تیرے کوچے سے گزرے' صدا نا کرے
۔۔درست لیکن یہاں بھی ’ایسا بھی‘ پہلے لفظ میں الف کا اسقاط اور ’بھی‘ کی ’ی‘ کا کھینچا جانا مستحسن نہیں۔

جو بھی چاہے ستم وہ روا رکھے پر
ہم کو خود سے کبھی بھی جدا نا کرے
۔۔ اصول نمبر 3

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سوا کچھ عطا نا کرے
۔درست

دل وہ ملا ہے اُس کو کہ توبہ بھلی
مرتا دیکھے مجھے تو دعا نا کرے
۔۔بحر میں نہیں آتا۔ تقطیع کر کے دیکھو۔ ’کو کہ‘ میں عیب تنافر بھی ہے۔
سر' جن باتوں کی نشاندہی فرمائی گئی ان کی روشنی میں کاوش ملاحظہ ہو۔

مِرے درد کی اب دوا نا کرے
یوں کرے وہ ستم گر' خدا نا کرے

گھر کے دروازے اب بند ہیں دوستو
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے

سوچ ایسا اگر ہو کہ چپ چاپ دل
تیرے کوچے سے گزرے صدا نا کرے

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سِوا کچھ عطا نا کرے

جو بھی چاہے ستم وہ کرے ٹھیک ہے
خود سے لیکن کبھی وہ جدا نا کرے

ہے وہ دل اُس کے سینے میں توبہ کرو
مرتا دیکھے مجھےگر دعا نا کرے
 

الف عین

لائبریرین
چلو، تکنیکی اسقام دور ہو گئیں۔ سوائے مطلع کے۔ لیکن وہ شاید ٹائپو ہے کہ پہلا لفظ ’وہ‘ لکھنا بھول گئے ہو جو پہلے لکھا تھا۔
اب دونوں کے مفہوم واضح نہیں۔
گھر کے دروازے اب بند ہیں دوستو
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے
۔۔کون ملے؟

سوچ ایسا اگر ہو کہ چپ چاپ دل
تیرے کوچے سے گزرے صدا نا کرے
پچھلاشعر غلط سہی، لیکن مطلب درست تھا، یہاں معنی خبط ہو گئے۔ سوچ مؤنث ہے، سوچ ایسی‘ ہنا چاہیے تھا۔
باقی اشعار درست ہیں۔ لیکن یہ
وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سِوا کچھ عطا نا کرے
زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ جیسے
بس وہی اک خلش۔۔۔۔
’دے‘ محذوف کرنے سے بیانیہ اور بہتر ہو جاتا ہے۔
 

نوید ناظم

محفلین
چلو، تکنیکی اسقام دور ہو گئیں۔ سوائے مطلع کے۔ لیکن وہ شاید ٹائپو ہے کہ پہلا لفظ ’وہ‘ لکھنا بھول گئے ہو جو پہلے لکھا تھا۔
اب دونوں کے مفہوم واضح نہیں۔
گھر کے دروازے اب بند ہیں دوستو
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے
۔۔کون ملے؟

سوچ ایسا اگر ہو کہ چپ چاپ دل
تیرے کوچے سے گزرے صدا نا کرے
پچھلاشعر غلط سہی، لیکن مطلب درست تھا، یہاں معنی خبط ہو گئے۔ سوچ مؤنث ہے، سوچ ایسی‘ ہنا چاہیے تھا۔
باقی اشعار درست ہیں۔ لیکن یہ
وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سِوا کچھ عطا نا کرے
زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ جیسے
بس وہی اک خلش۔۔۔۔
’دے‘ محذوف کرنے سے بیانیہ اور بہتر ہو جاتا ہے۔
سر توجہ فرمانے پر شکریہ!
جی بالکل ٹائپو ہے۔۔ معزرت۔

گھر کے دروازے اب بند ہیں دوستو
سر اس میں " گھر" دل کے استعارے کے طور پر استعمال کیا۔۔۔ دروازے بند ہونے سے دل کی ویرانیوں کی طرف اشارہ کیا کہ قلوب مقفل ہو گئے۔

آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے
سر! آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے سے حقیقی مراد تو یہ لیا کہ اگرکوئی انسان کسی کے دل میں خدا کا جلوہ تلاش کرنا چاہے تو نہ پائے حالانکہ حدیث کی رو سے مومن کا دل خدا کا عرش ہے اور اسی کے اندر لطائف موجود ہوا کرتے ہیں۔ اور مجازی مطلب یہ لیا کہ کسی کو کسی سے کوئی فیض ملنے کی توقع نہ رہی کہ دل تنگ ہو چکے۔

سوچ ایسا اگر ہو کہ چپ چاپ دل
سر یہاں سوچ کو مؤنث ہی لیا تھا سوچ تخاطب میں اور آگے سوالیہ ۔۔۔ سوچ! ایسا اگر ہو کہ چپ چاپ دل؟؟ ٹائپو ہوا کہ علامات نہ لگا سکا۔

بس وہی اک خلش... سبحان اللہ۔

سر! یہ گزارشات تھیں' آگے تو حکم وہی' جو آپ کا ہو۔
 
مِرے درد کی اب دوا نا کرے
یوں کرے وہ ستم گر' خدا نا کرے

گھر کے دروازے اب بند ہیں دوستو
آو ملنے تو کوئی ملا نا کرے

سوچ ایسا اگر ہو کہ چپ چاپ دل
تیرے کوچے سے گزرے صدا نا کرے

وہ دے کوئی خلش جو جگر میں رہے
چاہے اس کے سِوا کچھ عطا نا کرے

جو بھی چاہے ستم وہ کرے ٹھیک ہے
خود سے لیکن کبھی وہ جدا نا کرے

ہے وہ دل اُس کے سینے میں توبہ کرو
مرتا دیکھے مجھےگر دعا نا کرے
مشق کا فائدہ ہو رہا ہے، نوید بھائی۔ پختہ ہوتے جا رہے ہیں ماشاءاللہ!
ہمیں تو ایک ہی خامی نظر آئی ہے اور وہ ہے بھی بہت بڑی۔ آپ نے ردیف میں "نا کرے" کو فاعلن کے وزن پر باندھا ہے۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ "نہ" اور "کہ" وغیرہ کو صرف ایک حرف کے وزن پر باندھا جاتا ہے۔ یعنی "نہ" کو "نَ" قیاس کیا جاتا ہے اور "کہ" کو "کِ"۔
اب غزل کی ردیف بدلنے سے تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ مگر آئندہ سے ذہن میں رکھیے گا کہ "نہ" اور "کہ" کو کبھی دو حروف پر مشتمل نہیں سمجھنا۔ عروض میں یہ یہ دونوں لفظ یک حرفی ہیں۔ ٹھیک؟ :):):)
مثال:
نہ دیکھا کہ دنیا سے اٹھتا ہے کوئی
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے !
اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع میں نہ اور کہ دونوں بالکل صحیح باندھے گئے ہیں۔ اس طریقے کے علاوہ باندھنے کی اصولاً اجازت نہیں۔
فعولن = ندیکھا - فعولن = کدنیا - فعولن = سِ اٹھتا - فعولن = ہکوئی
 

نوید ناظم

محفلین
مشق کا فائدہ ہو رہا ہے، نوید بھائی۔ پختہ ہوتے جا رہے ہیں ماشاءاللہ!
ہمیں تو ایک ہی خامی نظر آئی ہے اور وہ ہے بھی بہت بڑی۔ آپ نے ردیف میں "نا کرے" کو فاعلن کے وزن پر باندھا ہے۔ مگر معاملہ یہ ہے کہ "نہ" اور "کہ" وغیرہ کو صرف ایک حرف کے وزن پر باندھا جاتا ہے۔ یعنی "نہ" کو "نَ" قیاس کیا جاتا ہے اور "کہ" کو "کِ"۔
اب غزل کی ردیف بدلنے سے تو بہت نقصان ہو جائے گا۔ مگر آئندہ سے ذہن میں رکھیے گا کہ "نہ" اور "کہ" کو کبھی دو حروف پر مشتمل نہیں سمجھنا۔ عروض میں یہ یہ دونوں لفظ یک حرفی ہیں۔ ٹھیک؟ ں:):)
مثال:
نہ دیکھا کہ دنیا سے اٹھتا ہے کوئی
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے !
اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع میں نہ اور کہ دونوں بالکل صحیح باندھے گئے ہیں۔ اس طریقے کے علاوہ باندھنے کی اصولاً اجازت نہیں۔
فعولن = ندیکھا - فعولن = کدنیا - فعولن = سِ اٹھتا - فعولن = ہکوئی
یہ آپ کا خلوص ہے۔۔۔ بہت شکریہ!
جی بالکل ''نا'' والی بات پر نہ نہیں کی جا سکتی۔۔۔ انشاءاللہ آئندہ کے لیے محتاط ہوں۔
''نہ'' اور ''کہ'' کو بھی کبھی دو حروف پر مشتمل نہیں سمجھوں گا۔۔۔۔ آپ نے جیسے رہنمائی فرمائی اس پر بے حد ممنون ہوں۔
 
Top