اس غزل میں دو بحور کا استعمال ہو گیا ہے۔ وہی دونوں مصرعے دوسری بحر میں آ گئے ہیں جن پر احباب کو وزن کا شک ہے۔
اس غزل کے ارکان ہیں
فاعلاتن مفاعلن فعلن
جو ان ارکان میں کنفیوز کی جا سکتی ہے
فاعلاتن فَعِلاتن فعلن
طرب کو درست تلفظ ے ساتھ (ط اور ر مفتوح) باندھا جائے تو یہ مصرع دوسری بحر میں ہوتا ہے، اور ’ر‘ پر سکون کے ساتھ باندھا جائے تو اسی غزل کی بحر میں آتا ہے۔ غزل کے لیے ایک ہی بحر کی پابندی ضروری ہے،۔
ہا کرو قیس کو ملبوس شکیل
والا مصرع بھی اسی دوسری بحر میں ہو گیا ہے۔
یہ دونوں اشعار تو درست کرنے کی ضرورت ہے ہی۔
یہ مصرع تو دونوں بحور میں نہیں آتا۔
سارا عالم سیراب ہو جائے