زبیر صدیقی
محفلین
السلام علیکم صاحبان و اساتذہ۔ ایک غزل پیشِ عرض ہے۔ کرونا کی وبا کی وجہ سے سفر کرنے سے قاصر ہوں، اور ایک مدت ہو گئی اپنے پیاروں سے ملے ہوئے، اپنے شہر (کراچی) گئے ہوئے۔ انہی جذبات کے اظہار کی کوشش کی ہے۔ برائے مہربانی اصلاح فرمائیں۔
(علم ہے کہ استاد الف عین صاحب اسکرین دیکھنے سے قاصر ہیں، مگر ان کو ٹیگ کرنا عادت بن چکا ہے)۔
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن
غم ہے، تجھ سے ہے جدائی، اور کوئی غم نہیں
خود سے ہے نا آشنائی، اور کوئی غم نہیں
پیاس ہے یہ دید کی، یہ دید ہی سے مٹ سکے
دید میں ہے یہ بُرائی، اور کوئی غم نہیں
دل نہیں، دھڑکن نہیں، ہم تم نہیں ہیں بے وفا
وقت کی ہے بے وفائی، اور کوئی غم نہیں
آنا جانا بے بسی ہے، ملنا جُلنا بے کسی
اُس پہ اپنی بے نوائی، اور کوئی غم نہیں
درد رہ رہ کر اُٹھا ہے، اشک رہ رہ کر بہے
یاد بھی رہ رہ کے آئی، اور کوئی غم نہیں
اپنی دنیا تھم گئی ہے، کارِ دنیا ہے رواں
سہہ رہے ہیں کج ادائی، اور کوئی غم نہیں
ہجر ہے، پھر ہجر ہے، پھر ہجر ہے، اِس ہجر میں
عمر ساری آزمائی، اور کوئی غم نہیں
والسلام
(علم ہے کہ استاد الف عین صاحب اسکرین دیکھنے سے قاصر ہیں، مگر ان کو ٹیگ کرنا عادت بن چکا ہے)۔
الف عین محمّد احسن سمیع :راحل: سید عاطف علی محمد خلیل الرحمٰن
غم ہے، تجھ سے ہے جدائی، اور کوئی غم نہیں
خود سے ہے نا آشنائی، اور کوئی غم نہیں
پیاس ہے یہ دید کی، یہ دید ہی سے مٹ سکے
دید میں ہے یہ بُرائی، اور کوئی غم نہیں
دل نہیں، دھڑکن نہیں، ہم تم نہیں ہیں بے وفا
وقت کی ہے بے وفائی، اور کوئی غم نہیں
آنا جانا بے بسی ہے، ملنا جُلنا بے کسی
اُس پہ اپنی بے نوائی، اور کوئی غم نہیں
درد رہ رہ کر اُٹھا ہے، اشک رہ رہ کر بہے
یاد بھی رہ رہ کے آئی، اور کوئی غم نہیں
اپنی دنیا تھم گئی ہے، کارِ دنیا ہے رواں
سہہ رہے ہیں کج ادائی، اور کوئی غم نہیں
ہجر ہے، پھر ہجر ہے، پھر ہجر ہے، اِس ہجر میں
عمر ساری آزمائی، اور کوئی غم نہیں
والسلام