سر
الف عین
رسالے کے لئے یہ غزل سلیکٹ کی ہے۔۔۔ تھوڑی موڈیفائی کی ہے۔۔۔ ایک نظر دیکھ لیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔۔۔ شکریہ
فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن
چاند چھپ گیا کہیں ، خشک جھیل رہ گئی
پیار کی یہ زندگی اب قلیل رہ گئی
دل یہ ٹوٹ تو گیا ، دھڑکنیں کہاں رکیں
اک ملن کی آرزو تھی ، جو طویل رہ گئی
پھر سے رت بدل گئی ، اڑ گئیں وہ تتلیاں
پھر سے وادیوں میں ایک اکیلی جھیل رہ گئی
اک قدم پہ جسم سے جسم مل گئے مگر
دو دلوں کی دوری پھر چند میل رہ گئی
پیار کا گواہ تھا جو ، جب وہی مکر گیا۔
کون سی ہمارے پاس پھر دلیل رہ گئی
قتل کر دیا مجھے ، لاش لٹکا دی مری
یا خدا ابھی بھی کچھ اور ڈھیل رہ گئی؟
حسن کا وہ گڑھ تھی جو ، میری ہمسفر تھی جو
ساتھی وہ کہاں حسیں اور جمیل رہ گئی ؟
گھر میں جو لگایا تھا ، فوٹو بھی اتر گیا
یادوں کی چبھی ہوئی ایک کیل رہ گئی