غزل برائے اصلاح "سنو میں خاک ہوتا جا رہا ہوں"

سنو میں خاک ہوتا جا رہا ہوں
حدِ افلاک ہوتا جا رہا ہوں

شرارت اسکی آنکھوں میں ہے ایسی
کہ میں چالاک ہوتا جا رہا ہوں

وظیفے میں اسے پڑھتا ہوں ہر شب
قسم سے پاک ہوتا جا رہا ہوں

گزرتی جا رہی ہے سانس اور میں
پسِ ادراک ہوتا جا رہا ہوں

عجب اک خوف ہے مجھ کو یہ آسی
بہت بے باک ہوتا جا رہا ہوں

محمد ارتضٰی آسی
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، پسند آئی۔ لیکن
حدِ افلاک ہوتا جا رہا ہوں
۔۔یہ مصرع ابلاغ نہیں دے رہا۔ واضح کریں۔

وظیفے میں اسے پڑھتا ہوں ہر شب
قسم سے پاک ہوتا جا رہا ہوں
۔۔اس میں تھوڑا ابہام ہے۔ محبوب کو ہی بطور تسبیح پڑھا جا رہا ہے یا اس کے نام کی تسبیح ہے؟؟
 
Top