نوید ناظم
محفلین
یار تو کم تھے تماشائی بہت
یوں نظر ہم نے بھی دوڑائی بہت
کل پھر اک سیلاب آنے والا تھا
کل یہ میری آنکھ بھر آئی بہت
غور سے دیکھو ہجومِ شہر کو
ہنس رہی تھی اس پہ تنہائی بہت
کوئی تجھ سا بھی ستم گر اب ملے
یوں تو مل جاتے ہیں ہرجائی بہت
وصل کی حسرت تو اب بھی دل میں ہے
گرچہ اس نے خوں میں نہلائی بہت
خیر اب تو ہجر میں بھی ہے مزہ
ہاں طبیعت پہلے گھبرائی بہت
وہ نوید اب بھی سمجھ پایا نہیں
اس کو دل کی بات سمجھائی بہت
یوں نظر ہم نے بھی دوڑائی بہت
کل پھر اک سیلاب آنے والا تھا
کل یہ میری آنکھ بھر آئی بہت
غور سے دیکھو ہجومِ شہر کو
ہنس رہی تھی اس پہ تنہائی بہت
کوئی تجھ سا بھی ستم گر اب ملے
یوں تو مل جاتے ہیں ہرجائی بہت
وصل کی حسرت تو اب بھی دل میں ہے
گرچہ اس نے خوں میں نہلائی بہت
خیر اب تو ہجر میں بھی ہے مزہ
ہاں طبیعت پہلے گھبرائی بہت
وہ نوید اب بھی سمجھ پایا نہیں
اس کو دل کی بات سمجھائی بہت