نوید ناظم
محفلین
ہرگھڑی ہیں عذاب آنکھوں میں
دُکھتے رہتے ہیں خواب آنکھوں میں
دو پیالے بھرے بھرے وہ بھی
ہم نے دیکھی شراب آنکھوں میں
سرخ ڈورے کہاں سے آئے ہیں
بھر لیے کیا گلاب آنکھوں میں؟
ہاں یہ پیاسے چُھپا کے رکھتے ہیں
اک سمندر جناب آنکھوں میں
کچھ تو ان کو قرار آئے گا
تم جو اترو بے تاب آنکھوں میں
اب تو منزل نظر نہیں آتی
لوٹ آئے سراب آنکھوں میں
اب وہ بخشے نوید تعبیریں
میں لے آیا ہوں خواب آنکھوں میں
دُکھتے رہتے ہیں خواب آنکھوں میں
دو پیالے بھرے بھرے وہ بھی
ہم نے دیکھی شراب آنکھوں میں
سرخ ڈورے کہاں سے آئے ہیں
بھر لیے کیا گلاب آنکھوں میں؟
ہاں یہ پیاسے چُھپا کے رکھتے ہیں
اک سمندر جناب آنکھوں میں
کچھ تو ان کو قرار آئے گا
تم جو اترو بے تاب آنکھوں میں
اب تو منزل نظر نہیں آتی
لوٹ آئے سراب آنکھوں میں
اب وہ بخشے نوید تعبیریں
میں لے آیا ہوں خواب آنکھوں میں