نوید ناظم
محفلین
بس مرے یار کم نہیں ہوتے
دل کے آزار کم نہیں ہوتے
ہم کو سایہ نہ مل سکا یاں پر
ورنہ اشجار کم نہیں ہوتے
یہ بڑھاتے ہیں اور مرے غم کو
کیوں یہ غمخوار کم نہیں ہوتے
دب کے رہ جاتے ہیں مرے کندھے
دکھ کے انبار کم نہیں ہوتے
جھوٹ لکھا ہے جھوٹ چھاپا ہے
پھر بھی اخبار کم نہیں ہوتے
تم نوید ان کو چھیڑ کر دیکھو
دل کے یہ تار کم نہیں ہوتے
دل کے آزار کم نہیں ہوتے
ہم کو سایہ نہ مل سکا یاں پر
ورنہ اشجار کم نہیں ہوتے
یہ بڑھاتے ہیں اور مرے غم کو
کیوں یہ غمخوار کم نہیں ہوتے
دب کے رہ جاتے ہیں مرے کندھے
دکھ کے انبار کم نہیں ہوتے
جھوٹ لکھا ہے جھوٹ چھاپا ہے
پھر بھی اخبار کم نہیں ہوتے
تم نوید ان کو چھیڑ کر دیکھو
دل کے یہ تار کم نہیں ہوتے