نوید ناظم
محفلین
میں تجھ کو بھلا دوں تو پھر کیا بنے
یہ خود کو سزا دوں تو پھر کیا بنے
نہ پوچھو مرا حالِ دل مجھ سے تم
میں سچ سچ بتا دوں تو پھر کیا بنے
جسے دیکھنے سےخدا یاد ہے
وہ بت بھی گرا دوں تو پھر کیا بنے
جو اک پردہ سا تجھ میں اور مجھ میں ہے
اگر یہ ہٹا دوں تو پھر کیا بنے
وہ جو بندگی سے ہی بیزار ہے
میں اس کو خدا دوں تو پھر کیا بنے
میں بھی طُور پر جا کے تجھ کو کبھی
تجلّی دکھا دوں تو پھر کیا بنے
یہ دنیا ہو جائے اِدھر سے اُدھر
میں نقشہ گھما دوں تو پھر کیا بنے
اسے روشنی چاہیے اب نوید
میں گھر کو جلا دوں تو پھر کیا بنے
یہ خود کو سزا دوں تو پھر کیا بنے
نہ پوچھو مرا حالِ دل مجھ سے تم
میں سچ سچ بتا دوں تو پھر کیا بنے
جسے دیکھنے سےخدا یاد ہے
وہ بت بھی گرا دوں تو پھر کیا بنے
جو اک پردہ سا تجھ میں اور مجھ میں ہے
اگر یہ ہٹا دوں تو پھر کیا بنے
وہ جو بندگی سے ہی بیزار ہے
میں اس کو خدا دوں تو پھر کیا بنے
میں بھی طُور پر جا کے تجھ کو کبھی
تجلّی دکھا دوں تو پھر کیا بنے
یہ دنیا ہو جائے اِدھر سے اُدھر
میں نقشہ گھما دوں تو پھر کیا بنے
اسے روشنی چاہیے اب نوید
میں گھر کو جلا دوں تو پھر کیا بنے