محمدارتضیٰ آسی
محفلین
محبت حرّیت کا راستہ ہے
مگر یہ آگ میں دِہکا ہوا ہے
فضا میں نور کیوں پھیلا ہوا ہے؟
یقیناً پھر کسی کا دل جلا ہے
مرا ہر اَنگ پتھر ہوگیا ہے
کہ اس نے وار ہی ایسا کیا ہے
دِکھاتا ہے جو مستقبل کا نقشہ
وہ آئینہ کہاں رکھا ہوا ہے؟
شجر جو سینچتا تھا خونِ دل سے
وہی اب چھاؤں کو ترسا ہوا ہے
رکو! وقتِ سحر آیا نہیں ہے
ابھی پلکوں پہ اک قطرہ رُکا ہے
خوشی راس آئے تو آئے بھی کیونکر
ہمیں دامن تراشیدہ ملا ہے
اُسے اکثر میں شب میں ڈھونڈتا ہوں
مرا سایہ کہیں پر کھو گیا ہے
سخنور دل شکستہ اور بھی ہیں
مرا رنگِ سخن سب سے جدا ہے
سمجھتے ہو کہ تم عاشق ہو آسیؔ
مرے بچّے تمہیں دھوکا ہوا ہے
محمد ارتضیٰ آسیؔ
مگر یہ آگ میں دِہکا ہوا ہے
فضا میں نور کیوں پھیلا ہوا ہے؟
یقیناً پھر کسی کا دل جلا ہے
مرا ہر اَنگ پتھر ہوگیا ہے
کہ اس نے وار ہی ایسا کیا ہے
دِکھاتا ہے جو مستقبل کا نقشہ
وہ آئینہ کہاں رکھا ہوا ہے؟
شجر جو سینچتا تھا خونِ دل سے
وہی اب چھاؤں کو ترسا ہوا ہے
رکو! وقتِ سحر آیا نہیں ہے
ابھی پلکوں پہ اک قطرہ رُکا ہے
خوشی راس آئے تو آئے بھی کیونکر
ہمیں دامن تراشیدہ ملا ہے
اُسے اکثر میں شب میں ڈھونڈتا ہوں
مرا سایہ کہیں پر کھو گیا ہے
سخنور دل شکستہ اور بھی ہیں
مرا رنگِ سخن سب سے جدا ہے
سمجھتے ہو کہ تم عاشق ہو آسیؔ
مرے بچّے تمہیں دھوکا ہوا ہے
محمد ارتضیٰ آسیؔ