غزل برائے اصلاح (مفعول مفاعلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
اپنے کہ پرائے تھے کہاں ہیں؟
اس دل میں جو آئے تھے کہاں ہیں؟

وہ خواب جو ہم نے اس کی خاطر
آنکھوں میں سجائے تھے کہاں ہیں؟

اب ساتھ میں صرف دھوپ کیوں ہے
بادل بھی تو لائے تھے کہاں ہیں؟

ہم نے بھی تو کچھ شجر یہیں پر
اےچھاؤں' لگائے تھے کہاں ہیں؟

مسجد سے نکل کے شیخ سیدھے
میخانے میں آئے تھے کہاں ہیں؟

دل کی زمیں پر نوید ہم نے
کچھ پھول اگائے تھے کہاں ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
دل کی زمیں پر نوید ہم نے
کچھ پھول اگائے تھے کہاں ہیں؟
اس کی تقطیع کریں، مجھے شک ہے کہ درست نہیں۔
باقی اشعار درست ہیں۔ بہتری ضرور ممکن ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
زمین میں ’ز‘ پر فتحہ ہے۔ جو اس تقطیع میں جزم سے بدل گیا۔
’میں پر‘ کو ’م۔پر‘ تقطیع کرنا بھی درست نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دل کی زمیں پر نوید ہم نے
کچھ پھول اگائے تھے کہاں ہیں؟
اس کی تقطیع کریں، مجھے شک ہے کہ درست نہیں۔
باقی اشعار درست ہیں۔ بہتری ضرور ممکن ہے۔
تقطیع کچھ کھینچ تان کر ہو سکتی ہے البتہ اب بہتر ہوگیا ہے۔
تاہم لگتا ہے پہلا مصرع دوسرے سے کچھ اور پیوستہ اور قوی ہوسکتا ہے۔
پہلے مصرع میں "کہیں " یا "کبھی " کا استعمال شعر کے تخیل کو مزید بہتر اسلوب عطا کر سکتا ہے۔
 
بہت خوب، نوید بھائی۔ اصلاح کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ :applause::applause::applause:
دل کی زمیں پر نوید ہم نے
کچھ پھول اگائے تھے کہاں ہیں؟
اس دل کی زمیں پہ ہم نے دیکھو
کچھ پھول اگائے تھے کہاں ہیں؟
اب زبردست ہے۔
اس سلسلے میں ایک قاعدہ یاد رکھیے۔ فارسی یا عربی الاصل الفاظ کا ایک بھی حرف آپ نہیں گرا سکتے سوائے دو صورتوں کے:
۱۔ اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی ہو۔ مثلاً فارسی کے الفاظ راستہ، دیدہ، خفتہ، سادہ وغیرہ اور عربی کے الفاظ عمدہ، مدینہ، وغیرہ، حملہ، وغیرہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوز گرانی جائز ہے۔
۲۔ اگر اس لفظ کے بعد الف سے شروع ہونے والا لفظ آ جائے۔ مثلاً:
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل ست​
حافظؔ کے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں خالی عربی لفظ ہے جس کی یائے تحتانی بظاہر تقطیع میں گر گئی ہے۔
بجز بنا = مفاعلن
ئِ محبت = فعلاتن
کخالِیَز = مفاعلن
خَلَلَست = فَعِلان
مگر درحقیقت یہ گری نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ تقطیع سے ظاہر ہے، اگلے الف سے مل گئی ہے۔ اسی لیے اس الف کو الفِ وصل کہتے ہیں۔ ی حرفِ علت تھی۔ اس کی دوسری مثال حروفِ صحیح سے دیکھیے تو اصول واضح ہو جائے گا:
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا​
غالبؔ کے اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع ملاحظہ ہو:
حالِ دل = فاعلن
نہیں معلوم = مفاعیلان
لیکِنِس = فاعلن
قدر یعنی = مفاعیلن
اس میں لیکن، جو عربی الاصل لفظ ہے، کا نون "اس" کی الفِ وصل کے ساتھ مل گیا ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ اگر آپ عربی یا فارسی اصل کے الفاظ کا کوئی بھی حرف گراتے ہیں تو ظلم ہے۔ :):):)
 

نوید ناظم

محفلین
تقطیع کچھ کھینچ تان کر ہو سکتی ہے البتہ اب بہتر ہوگیا ہے۔
تاہم لگتا ہے پہلا مصرع دوسرے سے کچھ اور پیوستہ اور قوی ہوسکتا ہے۔
پہلے مصرع میں "کہیں " یا "کبھی " کا استعمال شعر کے تخیل کو مزید بہتر اسلوب عطا کر سکتا ہے۔
جی بجا فرمایا آپ نے۔۔۔۔ لطف فرمانے پر آپ کا ممنون ہوں۔
 

نوید ناظم

محفلین
بہت خوب، نوید بھائی۔ اصلاح کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔ :applause::applause::applause:


اب زبردست ہے۔
اس سلسلے میں ایک قاعدہ یاد رکھیے۔ فارسی یا عربی الاصل الفاظ کا ایک بھی حرف آپ نہیں گرا سکتے سوائے دو صورتوں کے:
۱۔ اگر ان کے آخر میں ہائے مختفی ہو۔ مثلاً فارسی کے الفاظ راستہ، دیدہ، خفتہ، سادہ وغیرہ اور عربی کے الفاظ عمدہ، مدینہ، وغیرہ، حملہ، وغیرہ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوز گرانی جائز ہے۔
۲۔ اگر اس لفظ کے بعد الف سے شروع ہونے والا لفظ آ جائے۔ مثلاً:
خلل پذیر بود ہر بنا کہ می بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل ست​
حافظؔ کے اس شعر کے مصرعِ ثانی میں خالی عربی لفظ ہے جس کی یائے تحتانی بظاہر تقطیع میں گر گئی ہے۔
بجز بنا = مفاعلن
ئِ محبت = فعلاتن
کخالِیَز = مفاعلن
خَلَلَست = فَعِلان
مگر درحقیقت یہ گری نہیں ہے بلکہ، جیسا کہ تقطیع سے ظاہر ہے، اگلے الف سے مل گئی ہے۔ اسی لیے اس الف کو الفِ وصل کہتے ہیں۔ ی حرفِ علت تھی۔ اس کی دوسری مثال حروفِ صحیح سے دیکھیے تو اصول واضح ہو جائے گا:
حالِ دل نہیں معلوم لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بارہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا​
غالبؔ کے اس شعر کے مصرعِ اولیٰ کی تقطیع ملاحظہ ہو:
حالِ دل = فاعلن
نہیں معلوم = مفاعیلان
لیکِنِس = فاعلن
قدر یعنی = مفاعیلن
اس میں لیکن، جو عربی الاصل لفظ ہے، کا نون "اس" کی الفِ وصل کے ساتھ مل گیا ہے۔
مندرجہ بالا صورتوں کے علاوہ اگر آپ عربی یا فارسی اصل کے الفاظ کا کوئی بھی حرف گراتے ہیں تو ظلم ہے۔ :):):)
شکریہ راحیل بھائی۔۔۔ آپ نے جو کرم نوازی کی اس کے لیے بے حد شکریہ۔ انشاءاللہ جو باتیں بیان ہوئی ہیں ان کے بارے محتاط رہوں گا۔
اور یہ کہ اضافت کو وزن میں شمار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار کیا شاعر کے پاس ہوتا ہے؟ جیسے اوپر تقطیع میں حال کے ساتھ جو اضافت ہے وہ تو شمار نہیں کی جا رہی؟
 
اور یہ کہ اضافت کو وزن میں شمار کرنے یا نہ کرنے کا اختیار کیا شاعر کے پاس ہوتا ہے؟ جیسے اوپر تقطیع میں حال کے ساتھ جو اضافت ہے وہ تو شمار نہیں کی جا رہی؟
جی، نوید بھائی۔
اگر اضافت کو کھینچ کر یائے مجہول کی طرح پڑھا جائے تو اسے اشباع کہتے ہیں۔ اور اگر صرف زیر کی طرح خیال کر لیا جائے جو وزن میں محسوب نہ ہو، جیسا مذکورہ شعر میں ہے، تو اسے غالباً تخفیف کہتے ہیں۔
 
Top