عمار ابن ضیا
محفلین
غزل
اصلاح کے لیے
نشہ ہے تم کو ابھی اپنی جس جوانی کا
بہت قریب ہے انجام اس کہانی کا
وہ سہہ رہا ہے تِرے نام کی بھی رسوائی
سمجھ رہے ہو جسے اپنے نام پر ٹیکا
اگرچہ دیر ہی سے، مان جاؤگے لیکن
جو ہم نہیں ہوں تو محفل کا رنگ ہو پھیکا
وہ ایک مرضِ محبت کہ چھوڑتا ہی نہیں
ہر اِک طبیب لگاوے ہے زور چوٹی کا
ہزار کاموں میں مشغول ہم رہے عمار!
مگر چکا نہ سکے قرض اپنی مٹی کا
اصلاح کے لیے
نشہ ہے تم کو ابھی اپنی جس جوانی کا
بہت قریب ہے انجام اس کہانی کا
وہ سہہ رہا ہے تِرے نام کی بھی رسوائی
سمجھ رہے ہو جسے اپنے نام پر ٹیکا
اگرچہ دیر ہی سے، مان جاؤگے لیکن
جو ہم نہیں ہوں تو محفل کا رنگ ہو پھیکا
وہ ایک مرضِ محبت کہ چھوڑتا ہی نہیں
ہر اِک طبیب لگاوے ہے زور چوٹی کا
ہزار کاموں میں مشغول ہم رہے عمار!
مگر چکا نہ سکے قرض اپنی مٹی کا