غزل برائے اصلاح و تنقید۔۔۔ فرقتِ یار میں کیا خوب نظارے دیکھے ۔۔۔از محمد ذیشان نصر

استاذگرامی جناب الف عین محمد یعقوب آسی صاحب لفظ گذرے کی درست املاء کیا ہے ؟؟؟؟

اس میں لمبا رَولا ہے صاحب۔ محمد وارث صاحب کا ایک بہت قیمتی مضمون "گذشتن، گذاشتن اور گزاردن" کے حوالے سے اردو محفل پر موجود ہے وہ بھی دیکھ لیجئے۔

ڈاکٹر رشید حسن خان کی سفارشات، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی والی کمیٹی کی سفارشات، اور ڈاکٹر گوپی چند نارنگ والی کمیٹی کی سفارشات کے بعد میری رائے جو پہلے تھی وہ بھی نہیں رہی۔ سو، میں نے ز سے لکھنا اپنا لیا۔

جناب الف عین اور جناب محمد وارث کو زحمت دیجئے۔
 
راہِ الفت سے جو گذرے تو تڑپتے ہم نے
عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بچارے دیکھے
۔۔عجز بیان کا شکا رہے۔ فاعل بت چارے بہت دور جا پڑے اپنے فعل سے۔

محترمی اعجاز عبید کے ایماء پر عرض کروں ۔۔۔۔

راہِ الفت سے جو گذرے تو تڑپتے ہم نے
عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بچارے دیکھے
اس کو جیسا مراد ہے نثر میں لکھیں تو ۔۔۔
ہم جو راہ الفت سے گزرے تو ہم نے عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بے چارے تڑپتے دیکھے۔
تڑپنے کا تعلق شعر کے مفہوم کے مطابق ان بے چاروں سے ہے ہم سے نہیں۔ یہاں "تڑپتے ہم نے" سے احتمال ہوتا ہے کہ ۔۔۔
ہم جو راہ الفت سے تڑپتے ہوئے گزرے تو ہم نے عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بے چارے دیکھے۔ ظاہر ہے شاعر کا مقصود یہ نہیں ہے۔
ایک لفظ کی نشست اپنے متوقع مقام سے دور جا پڑی۔ اس کو آپ تعقیدِ لفظی کہہ لیجئے (لفظ گانٹھنا) کہ کہیں ہٹ کر واقع ہونے والے ایک لفظ کو معنوی سطح پر کہیں اور جوڑا گیا۔
عجزِ بیان وہ ہے کہ شاعر کا مقصودِ بیان تو سمجھ میں آ رہا ہے، مگر کوئی ایسی بات ہے یا کوئی ایسا احتمال ہے جو شاعر کا مقصود نہیں۔ یہاں تعقید وجہ ہے عجزِ بیان کی ۔۔۔۔


میں نے درست عرض کیا؟ محترمی اعجاز عبید صاحب!
 
آخری تدوین:
استاذ گرامی میرے جیسا کج فہم آپ کے اس ارشاد کو سمجھ نہیں پایا براہِ کرم آسان الفاظ میں وضاحت فرمائیں
۔۔عجز بیان کا شکا رہے۔ فاعل بت چارے بہت دور جا پڑے اپنے فعل سے۔
"فاعل بت چارے" بظاہر کتابت کی غلطی ہے ے کی جگہ ت ٹائپ ہو گیا، ساتھ کی کلید ہے نا۔ اس کو "بے چارے" پڑھئے ۔
 
آخری تدوین:

متلاشی

محفلین
محترمی اعجاز عبید کے ایماء پر عرض کروں ۔۔۔۔

راہِ الفت سے جو گذرے تو تڑپتے ہم نے
عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بچارے دیکھے
اس کو جیسا مراد ہے نثر میں لکھیں تو ۔۔۔
ہم جو راہ الفت سے گزرے تو ہم نے عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بے چارے تڑپتے دیکھے۔
تڑپنے کا تعلق شعر کے مفہوم کے مطابق ان بے چاروں سے ہے ہم سے نہیں۔ یہاں "تڑپتے ہم نے" سے احتمال ہوتا ہے کہ ۔۔۔
ہم جو راہ الفت سے تڑپتے ہوئے گزرے تو ہم نے عشقِ لیلیٰ میں کئی قیس بے چارے دیکھے۔ ظاہر ہے شاعر کا مقصود یہ نہیں ہے۔
ایک لفظ کی نشست اپنے متوقع مقام سے دور جا پڑی۔ اس کو آپ تعقیدِ لفظی کہہ لیجئے (لفظ گانٹھنا) کہ کہیں ہٹ کر واقع ہونے والے ایک لفظ کو معنوی سطح پر کہیں اور جوڑا گیا۔
عجزِ بیان وہ ہے کہ شاعر کا مقصودِ بیان تو سمجھ میں آ رہا ہے، مگر کوئی ایسی بات ہے یا کوئی ایسا احتمال ہے جو شاعر کا مقصود نہیں۔ یہاں تعقید وجہ ہے عجزِ بیان کی ۔۔۔۔


میں نے درست عرض کیا؟ محترمی اعجاز عبید صاحب!

شکریہ استاذ گرامی ۔۔۔ سمجھ گیا ۔۔۔ آئندہ خیال رکھوں گا۔۔۔۔!
 
Top