غزل برائے اصلاح و تنقید

کبھی نہ لہر بن سکا، بہاؤ میں گزر گیا
سکوں کی آرزو لئے، تناؤ میں گزر گیا


گزر گئی تمام عمر جس کی آرزو لئے
وہ لمحۂ وصال رکھ رکھاؤ میں گزر گیا


کبھی کوئی حسیں لگا، کبھی کوئی حسین تر
مرا شباب حسن کے چناؤ میں گزر گیا


ستم کہ بحرِ عشق میں کبھی نہ میں اتر سکا
مرا سفر تو حسرتوں کی ناؤ میں گزر گیا


تمام عمر جس سبب، گھمنڈ تجھ کو تھا بہت
وہ مال و دھن ترے ہی بچ بچاؤ میں گزر گیا


میں اجنبی کے ہاتھ تیرے سامنے ہی بک گیا
ترا تمام وقت بھاؤ تاؤ میں گزر گیا


نہ ہمسفر ملا مجھے، نہ راستہ ملا کوئی
پڑاؤ میں جنم ہوا، پڑاؤ میں گزر گیا

منصور محبوب چوہدری ۔ ۲۰۱۸ مئی​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ مال و دھن کی ترکیب کے علاوہ باقی سب درست ہے۔حیرت ہے کہ مال و زر کا سامنے کا محاورہ استعمال نہیں کیا۔ 'چناؤ' کا ہندی لفظ کچھ عجیب لگتا ہے مگر یہ قافیہ ہے، اس لیے خاموش ہوں۔
 
بہت اچھی غزل ہے۔ منصور صاحب۔
مال و دھن کی ترکیب البتہ ناہموار ہے ۔

بہت شکریہ عاطف بھائی ۔ خلیل صاحب نے مال و زر کا مشورہ دیا ہے جس سے استاد محترم نے بھی اتفاق کیا۔


بہت خوب صورت غزل ۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔

خلیل صاحب ۔ بہت نوازش اور آپ نے مشکل ہی حل کر دی ۔
اچھی غزل ہے۔ مال و دھن کی ترکیب کے علاوہ باقی سب درست ہے۔حیرت ہے کہ مال و زر کا سامنے کا محاورہ استعمال نہیں کیا۔ 'چناؤ' کا ہندی لفظ کچھ عجیب لگتا ہے مگر یہ قافیہ ہے، اس لیے خاموش ہوں


استاد محترم شکریہ، آپ کی حوصلہ افزائی کا۔ مال و زر سے بہتر ہوگئی ہے
 
Top