محمد عظیم الدین
محفلین
جی عظیم بھائی بہتر ہے، یہ دیکھیے کیسا رہے گا÷مجھے لگتا ہے کہ آپ کو مطلع ہی دوسرا کہنا پڑے گا ۔ چہرے کے تاثرات کو خطاؤں سے تعبیر کرنا شاید بہت سے الفاظ کا متقاضی ہے ۔ اس خیال کے لیے الگ سے ایک شعر ہو سکتا ہے ۔
ہمیں تیری محبت کی سزائیں مار دیتی ہیں
تیرے معصوم چہرے کی ادائیں مار دیتی ہیں
اب اس سے زیادہ سکت نہیں ہے بھائی، پاسنگ مارکس ہے دے دیں۔÷واقعی یہ مشکل ہے ۔ دراصل 'ہوائیں' بھرتی کا محسوس ہو رہا تھا اس لیے میں نے ان الفاظ کے استعمال کا مشورہ دیا تھا ۔ اگر کسی طرح 'فضائیں' بھی لے آ جائے تب بھی درست کیا جا سکتا ہے اس شعر کو ۔
ہمیں خود پر تو قابو ہے مگر تیرے بدن کی اف
مہک سے یوں معطر یہ فضائیں مار دیتی ہیں
یوں ٹھیک ہے؟÷ابلاغ کے اعتبار سے کچھ بہتر معلوم ہو رہا ہے ۔ لیکن ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رشتے نبھانے پر مجبور کون کر رہا ہے ۔ یعنی یہ سزائیں کس طرف سے ملیں ؟ پہلے مصرع کی ایک صورت یہ بھی ذہن میں آ رہی ہے ۔
بھروسہ رشتے ناطوں پر کیا ہم نے مگر پھر بھی
ہمیں رشتے نبھانے کی سزائیں مار دیتی ہیں
نکال دیا جناب، اس کے بدلے اس شعر کو دیکھیے ذرا۔÷'جفائیں' بھرتی کا لگ رہا ہے ۔ میرے خیال میں اس شعر کو نکال ہی دیجیے ۔
مریضِ دل جو خود بھی ہیں مجھے تجویز کرتے ہیں
ہمیں ایسے طبیبوں کی دوائیں مار دیتی ہیں
یہ مناسب ہے؟÷نہیں بھائی 'صدائیں' فٹ نہیں ہو پا رہا ۔
رہے دل میں تو اچھا ہے محبت بن کے خاموشی
مگر ایسی محبت کی رجائیں مار دیتی ہیںٹھیک ہے جی، یہ دیکھیے÷یہ بات تو واضح ہو گئی کہ کس جانب سے عطائیں ہیں لیکن کس طرح کی یہ معاملہ ویسا ہی ہے ۔
انھیں سے پوچھ کر دیکھو یہ محرومی بھی نعمت ہے
جنھیں محبوب کے غم کی بکائیں مار دیتی ہیں