زبیر صدیقی
محفلین
السلام علیکم صاحبان۔ غیر حاضری کی معذرت۔ اولاً چین میں یہ ویبسائٹ کافی دیر سے لوڈ ہوتی ہے اور پچھلے دنوں بہت ہی سست تھی۔ دوئم یہ کہ دفتری مصروفیات بڑھ گئیں ہیں جس نے ارتکازِ آمد پہ پہرے بٹھا دیے ہیں۔ بلکہ تازہ درج ذیل غزل بھی اسی الجھن کو بیان کر رہی ہے۔ خیر اِنَّ مع العسر یسراً کے حساب سے حل بھی یہیں کہیں ہو گا۔
تازہ غزل لکھی ہے، جناب الف عین سید عاطف علی محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن اساتذہ سے کہ برائے مہربانی اس پر نظر کیجئے اور مشوروں سے نوازیں۔ (ردیف میں"آخر "کے ر کے نیچے زیر ہے، جو ر میں مل کر نظر نہیں آ رہا)
ہوئے مصروفِ کار، آخرِ کار
مان لی دل نے ہار، آخرِ کار
کب مرے تھے؟ ترے بھی اب نہ رہے
میرے لیل و نَہار، آخرِ کار
ذہن میں تم ہی تھے، مگر ہائے
چھا گیا روزگار، آخرِ کار
غمِ دوراں تھا ساتھ، تج ہی کیا
غمِ جاناں کا بار، آخرِ کار
حال خود ہی چنا، کہ ایک ہوئے
جبر اور اِختیار، آخرِ کار
نہ رہے بے قرار عشق میں اب
پھر بھی ہیں بے قرار، آخرِ کار
کھو دیا عقل نے بھی، دل نے بھی
ہم نے بھی اعتبار، آخرِ کار
والسلام۔
تازہ غزل لکھی ہے، جناب الف عین سید عاطف علی محمّد احسن سمیع :راحل: محمد خلیل الرحمٰن اساتذہ سے کہ برائے مہربانی اس پر نظر کیجئے اور مشوروں سے نوازیں۔ (ردیف میں"آخر "کے ر کے نیچے زیر ہے، جو ر میں مل کر نظر نہیں آ رہا)
ہوئے مصروفِ کار، آخرِ کار
مان لی دل نے ہار، آخرِ کار
کب مرے تھے؟ ترے بھی اب نہ رہے
میرے لیل و نَہار، آخرِ کار
ذہن میں تم ہی تھے، مگر ہائے
چھا گیا روزگار، آخرِ کار
غمِ دوراں تھا ساتھ، تج ہی کیا
غمِ جاناں کا بار، آخرِ کار
حال خود ہی چنا، کہ ایک ہوئے
جبر اور اِختیار، آخرِ کار
نہ رہے بے قرار عشق میں اب
پھر بھی ہیں بے قرار، آخرِ کار
کھو دیا عقل نے بھی، دل نے بھی
ہم نے بھی اعتبار، آخرِ کار
والسلام۔