سید عاطف علی
لائبریرین
اسے عموما
فعلن فعلن فعلن فع
کہا اور سمجھا جاتا ہے ۔ اس اس کے کئی عام ؔمشتقات ؔ کی شکلیں برتی جاتی ہیں ۔
فعلن فعلن فعلن فع
کہا اور سمجھا جاتا ہے ۔ اس اس کے کئی عام ؔمشتقات ؔ کی شکلیں برتی جاتی ہیں ۔
کچھ لوگوں کے مطابق یہ بحر فعل فعول فعول فعل ہے اور تسکینِ اوسط کے ذریعے اس کی دیگر شکلیں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس اصول کے مطابق دو فَعَل اس بحر میں ایک ساتھ واقع نہیں ہو سکتے لیکن ایسا عین ممکن اور جائز ہے، جیسا کہ اس مصرع میں ہے:اسے عموما
فعلن فعلن فعلن فع
کہا اور سمجھا جاتا ہے ۔ اس اس کے کئی عام ؔمشتقات ؔ کی شکلیں برتی جاتی ہیں ۔
ہاں یہ بات بھی درست ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ بحر ہندی کی تعبیرات کافی پرسنلائزڈ انٹرپریٹیشنز کے کئی امکانات رکھتی ہیں ۔اس شعر کے مصرعِ اول کو عروضی اصول پر موزوں کہنا ممکن نہیں ہے، اسی لیے بہتر یہی ہے کہ عروض کا غیر ضروری نفاذ بحرِ ہندی پر نہ کیا جائے۔
ابھی اور انتظار کرنا پڑے گاہاں شاعری سے اندازہ ہوگیا تھا
بس جلد خوشخبری سنائیے
غزل کی پذیرائی کے لیے تہہِ دل سے شکر گزار ہوںمحترم الف عین صاحب
محترم سید عاطف علی صاحب
محترم یاسر شاہ صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح کی درخواست ہے ۔
غزل
کس نے بورڈ پہ لکھّا ہے
میرا نام شگفتہ ہے
میں اک اچھا لڑکا ہوں
اس کو ایسا لگتا ہے
دکھ میں پتا چل جائے گا
کون تمہارا اپنا ہے
بچا ہوا کھانا مت پھینک
تیرا پڑوسی بھوکا ہے
عہدِ جوانی ، اچھا ! یہ ؟
ایک ہوا کا جھونکا ہے
شیشہ ، وعدہ اور دل میں
شاید کوئی رشتہ ہے
کہنے سے کچھ نئیں ہوتا
کرنے سے سب ہوتا ہے
پیار اندھا ہوتا ہے دوست !
یہ مشہور مقولہ ہے
پچھلی رات کی حرکت پر
وہ دل سے شرمندہ ہے
اب آنکھیں ہوتے ہی چار
فون کا بل بڑھ جاتا ہے
تم کو دیکھ کے جانے کیوں
دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے
سارے شہر میں آج اشرف
بس تیرا ہی چرچا ہے
پیار دوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتاہے’’پیار دیوانہ ہوتا ہے
اور مستانہ ہوتا ہے
ہر خوشی سے ہر غم سے
یہ بیگانہ ہو ہوتا ہے
خوب کہا ہے شعرا نے
دنیا روکے لاکھ مگر
جس پر آنا ہو یہ دل
اس پر آ ہی جاتا ہے
؟؟؟؟پیار دوانہ ہوتا ہے مستانہ ہوتاہے
ہر خوشی سے پر غم سے بیگانہ ہوتا ہے
ایک مشہور گانا ہے۔
ہاں بھائی، وہ تو معلوم ہے ۔۔۔ آپ کو کیا لگا کہ ہم نے اپنے مراسلے میں تازہ آمد شریک کی تھی؟ 👨🍼ایک مشہور گانا ہے۔
سلامت رہیں محترمہ سیما علی صاحبہغزل (اصلاح کے بعد)
کس نے بورڈ پہ لکھّا ہے
میرا نام شگفتہ ہے
پیار تو اندھا ہوتا ہے
یہ مشہور مقولہ ہے
میں اک اچھا لڑکا ہوں
اس کو ایسا لگتا ہے
دکھ میں پتا چل جائے گا
کون تمہارا اپنا ہے
بچا ہوا کھانا مت پھینک
تیرا پڑوسی بھوکا ہے
عہدِ جوانی ، اچھا ! یہ ؟
ایک ہوا کا جھونکا ہے
شیشہ ، وعدہ اور دل میں
شاید کوئی رشتہ ہے
کہنے سے کچھ نئیں ہوتا
کرنے سے سب ہوتا ہے
پچھلی رات کی حرکت پر
وہ دل سے شرمندہ ہے
اب آنکھیں ہوتے ہی چار
فون کا بل بڑھ جاتا ہے
تم کو دیکھ کے جانے کیوں
دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے
سارے شہر میں آج اشرف
بس تیرا ہی چرچا ہے